کراچی سمیت سندھ کے شہروں میں معمولات زندگی بحال!
تجزیہ:۔ چودھری خادم حسین
اللہ اللہ کر کے دو روز کے بعد کراچی سمیت سندھ کے شہروں میں زندگی معمول پر آنا شروع ہو گئی کہ خود متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے اپیل کی اور کہا کہ لوگ اپنا اپنا کام کریں، متحدہ کا دھرنا البتہ جاری رہے گا، اس طرح متحدہ کی طرف سے سندھ کی حد تک اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کر دیا گیا ہے دو روز تک شہروں میں ہڑتال کی کیفیت اور اس کا عالم طاری تھا۔ متحدہ کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف کارروائی تو لندن میں ہوئی لیکن احتجاج کا سارا زور پاکستان میں تھا، متحدہ کے ایک اہم راہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ لوگوں نے از خود متحدہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔ وہ یہ کہتے وقت اس امر کو پیش نظر نہ رکھ سکے کہ جونہی الطاف حسین کی گرفتاری کے حوالے سے بریکنگ نیوز چلی ہنگامے شروع ہو گئے تھے۔ کراچی میںقریباً بارہ گاڑیاں جلا دی گئیں ہوائی فائرنگ سے دوکانیں بند کرائی گئیں اور ایسا ہی کچھ دوسرے شہروں میں ہوا اور یوں شہریوں نے نقصان سے بچنے کے لئے خوفزدہ ہو کر گھروں میں پناہ لی۔ متحدہ نے جو رویہ دو روز بعد اختیار کیا وہ فوری طور پر بھی کیا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا شاید مقصد اہمیت ثابت کرنا تھا جس میں پہلے ہی کوئی شک نہیں کہ کئی بار ایسا ہو چکا۔
الطاف حسین کے خلاف تفتیش اور متحدہ کے ردعمل نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے ایک سوال قیادت کا ہے، بلاشبہ الطاف حسین مسلمہّ قائد ہیں اور ان کی ذات ہی کو محور بنا کر متحدہ نے اپنے وجود کو اس حد تک برقرار رکھا ہوا ہے کہ کسی اور کا دیا نہیں جلتا۔ بہت سے لوگ بہت کچھ دیکھ اور سوچ رہے ہیں تاہم بہتر عمل یہ ہو گا کہ انتظار کیا جائے۔ سب سے پہلے تو خود الطاف حسین کی اپنی صحت کا سوال ہے۔ اس کے بعد الزام اور صفائی کا مسئلہ ہے دیکھنا یہ ہے کہ پولیس آگے کیا کارروائی کرتی ہے کیا فرد جرم عائد کر کے معاملہ عدالت میں لے جاتی ہے؟ اگر یہ صورت ہو گی تو پھر الطاف حسین کو اپنے دفاع کا بھی پورا حق ہو گا اور برطانوی قانون اور روایات کے مطابق ان کو پورا پورا موقع دیا جائے گا، یہ امکان بھی تو ہو سکتا ہے کہ پولیس اس معاملہ میں مبینہ طور پر ملوث ایک شخص کو جو جنوبی افریقہ سے آئے ضمانت دے چکی ہوئی ہے ۔ ایسا الطاف حسین سے بھی ممکن ہے اور اگر کیس شروع ہوا تو پھر پولیس ہی کو الزام کسی شک کے بغیر ثابت کرنا ہو گا۔ آج جو حضرات احتجاج کر رہے ہیں یا جو اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ سب برطانوی قانون عدلیہ اور پولیس کے گن گاتے رہے ہیں، بلکہ انگلینڈ تو پناہ گاہ ہے آج بے شمار لوگ سیاسی پناہ پر برطانیہ میں موجود ہیں اور برطانوی شہریت بھی حاصل کر چکے ہوئے ہیں خود الطاف حسین کو 22برس گذر گئے وہ نہ صرف برطانوی شہری ہیں بلکہ ایم کیو ایم کا مرکزی سیکریٹریٹ لندن میں ہے اور قائد تحریک وہاں سے سیاست کرتے ہیں۔ ایسے ہی کئی اور بھی حضرات ہیں جو مختلف ممالک سے تعلق رکھتے اور مطلوب ہیں لیکن برطانوی قوانین سے فائدہ اٹھا کر سیاسی پناہ حاصل کر چکے ہوئے ہیں، اس لئے عمران خان کی بات میں وزن ہے کہ جہاں وقوعہ ہو رہا ہے احتجاج اور دفاع بھی وہاں ہونا چاہئے۔ بہرحال کراچی اور سندھ کے شہروں میں کاروبار زندگی معمول پر ہو تو متحدہ اپنا دھرنے کا حق استعمال کرے کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے اصول یہی ہے کہ اگرچہ حکومت پاکستان یا پاکستان کے عوام نے کچھ نہیں کیا تو ان کو پریشان نہ کیا جائے۔ آج ہمدردی ہے اسے سنبھالا جائے۔
راولپنڈی میں خودکش حملہ، چیک پوسٹ پر افغانستان سے گولہ باری اور فائرنگ کے واقعات کے ہوتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان نے ذمہ داری قبول کر کے ایک مرتبہ پھر اپنے وجود کا اعلان کیا اور محاذ آرائی کو ترجیح دی ہے، ایسی کارروائیوں کی روشنی میں مذاکرات والے حضرات کی آواز دب سی گئی اور عوام کی طرف سے آپریشن کا مطالبہ شروع ہو گیا ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت نے اگر دفاع کرنے اور ٹارگٹیڈ آپریشن ہی کا فیصلہ کر رکھا ہے تو پھر عوام کی خواہش بے معنی ہو جاتی ہے ۔ اب بھی یہ فیصلہ کہ آگے کیا کرنا ہے سیاسی اور عسکری قیادت نے باہمی طور پر کرنا ہے اور یہ جلد ہونا چاہئے۔ اگر مذاکرات ہی کرنا ہیں تو یہ جو ڈیڈ لاک ہے اسے یکطرفہ طور پر ختم کر دیا جائے یا پھر حتمی کارروائی کا سلسلہ شروع ہو قوم کو گو مگو میں نہ رکھا جائے اور حفاظتی انتظامات کے نام پر یہ جو راستے بند ہیں اور ناکے لگتے ہیں ان سے نجات ہو اور پولیس جرائم کی طرف توجہ دے سکے۔ عوام کا نام لیں تو عوام کا تحفظ بھی کریں۔
تجزیہ خادم حسین