اسحاق ڈار کو ہتھ ہولا رکھنے کی عادت نہیں!

عزت مآب عرف نوٹاں والی سرکار وزیر خزانہ مملکت خداد داد پاکستان اسحاق ڈار نے خود تسلیم کیا ہے کہ بجٹ میں ایک کھرب اڑتالیس ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ موصوف نے یہ نہیں بتایا کہ تقریباً ڈیڑھ کھرب روپے کے یہ ٹیکس کس پر لگائے گئے ہیں، عام آدمی پر یا خواص پر، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے یہ ٹیکس ان غریبوں پر نافذ کئے ہیں جو پہلے ہی ٹیکسوں کی وجہ سے ایک اذیت ناک زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، کیونکہ مہنگائی میں اضافے اور آمدنی میں کمی نے ان کے سارے کس بل نکال دیئے ہیں۔۔۔’’مرے کو مارے اسحاق ڈار‘‘کے مصداق یہ بجٹ بھی جی ایس ٹی بجٹ ہے، جس میں ہندسوں اور لفظوں کے ہیر پھیر سے عوام کو پھر بے وقوف بنایا گیا ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بجٹ کی وجہ سے کوئی ایک شے بھی ایسی نہیں جو سستی ہوئی ہو۔ جہاں پانی پر بھی ٹیکس لگ جائے، وہاں صرف ہوا ہی باقی رہ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر منچلے یہ پوسٹ چلا رہے ہیں کہ اسحاق ڈار کا شکریہ کہ انہوں نے خوبصورتی پر ٹیکس نہیں لگایا، وگرنہ پاکستان میں بدصورت بننے کی دوڑ شروع ہو جاتی۔
یہ ماضی کی طرح کا ایک سیدھا سادہ بجٹ ہے، جس کا فارمولا وہی ہے، جو ہمیشہ سے رہا ہے کہ عوام پر بالواسطہ مزید ٹیکس نافذ کردو اور براہ راست ٹیکس لگانے سے گریز کرو۔ اس بجٹ میں تو ایک بھی ایسی مد نہیں ڈھونڈی گئی، جیسے نئی مد کہا جا سکے۔ سب وہی مدات ہیں، جن میں ہمیشہ اضافہ کر کے بجٹ بنایا جاتا ہے۔ 148 ارب روپے کے نئے ٹیکس اگر امیروں پر براہ راست لگائے جاتے، ان کے عالیشان بنگلوں، زمینوں، قیمتی گاڑیوں اور بینک کھاتوں کی بنیاد پر ٹیکس وصول کیا جاتا تو کم از کم پاکستان کے عوام کو 148ارب روپے کے ٹیکسوں کا بوجھ تو نہ اٹھانا پڑتا۔ مزدور کی کم از کم اجرت میں ایک ہزار روپے کا اضافہ کر کے دوسرے ہاتھ سے اس پر نئے ٹیکس لگاکر جو شعبدہ بازی کی گئی ہے، اس کا آخر فائدہ کیا ہے۔ آخر کیوں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ عوام کو لفظی اور کاغذی طریقے سے خواب دکھا کر اپنا کام چلایا جائے، آخر زمینی حقائق کو پیش نظر کیوں نہیں رکھا جاتا؟
جمہوریت میں تو کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ آپ لفظوں اور ہندسوں کے ہیر پھیر سے لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں۔ خلق خدا معاشی دباؤ کے ہاتھوں انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری ملک کے دو ایسے ایشوز ہیں، جنہیں سب کام چھوڑ کر حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔، مگر اس بجٹ میں ان دونوں کو سامنے رکھا ہی نہیں گیا ،بس یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین کی 10فیصد تنخواہ بڑھا کر اور مزدور کی تنخواہ میں ایک ہزار روپے کا اضافہ کر کے حاتم طائی کی قبر پر جو لات ماری گئی ہے، اس سے یہ دونوں مسئلے حل ہو جائیں گے۔ عوام کو ریلیف تو اس صورت میں ملتا کہ بنیادی اشیائے ضروریہ کو جی ایس ٹی نیٹ سے نکال دیا جاتا ،یہاں تو پولٹری خوراک پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے اور اسحاق ڈار فرماتے ہیں کہ مرغی کا ریٹ 200رپے کلو سے اوپر نہیں جائے گا۔ گویا انہوں نے مرغی کے گوشت کا دو سو روپے ریٹ تو مقرر کر ہی دیا ہے۔ پہلے مرغی ایک سو پچاس سے ایک سو اسی کے درمیان فی کلو مل جاتی تھی۔ آخر کون سی ایسی قیامت آ گئی تھی کہ اس آئٹم پر ٹیکس لگانا ضروری ہو گیا تھا۔ چھوٹا گوشت تو پہلے ہی عوام بھول چکے ہیں، بڑا گوشت بھی چار سو روپے کی حد تک پہنچ گیا ہے، صرف یہ فارمی مرغی کا گوشت ہی عوام کی دسترس میں تھا، اسے بھی نشانہ بنا لیا گیا ہے۔
اسحاق ڈار نے اسمبلی میں یہ دعویٰ بھی کیا اور پریس کانفرنس میں بھی کہ موجودہ بحث کا شتکاروں کا بجٹ ہے۔ کھاد کی بوری اور بجلی سستی کر کے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ کاشتکار کے سارے مسائل حل ہو گئے، حالانکہ کاشتکاروں کے اصل مسائل تب شروع ہوتے ہیں، جب وہ سال بھر کی مزدوری اور مشقت کے بعد اپنی فصلوں کو بیچنے نکلتے ہیں۔ کپاس کی گانٹھ کاریٹ جننگ فیکٹری مالکان ایکا کر کے اوپر نہیں جانے دیتے، دوسری طرف گندم کی فصل آنے پر کسانوں کا محکمہ خوراک والوں کے ہاتھوں جو استحصال ہوتا ہے، اس کی کئی شرمناک مثالیں حالیہ دنوں میں بھی دیکھنے کو ملیں ۔اربوں روپے کسانوں کے لوٹے جاتے ہیں۔ باردانہ کے حصول سے لے کر وزن، معیار اور چیک تک کے تمام مراحل میں قدم قدم پر اسے ڈاکوؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو انہیں لوٹتے چلے جاتے ہیں۔ منڈیوں میں آڑھت کا جو استحصالی نظام چل رہا ہے، اس کی وجہ سے کسان کو ایک روپے کی چیز کے دو آنے ملتے ہیں۔ بجٹ میں جب تک اس حوالے سے اقدامات تجویز نہیں کئے جاتے اور صوبوں کو معیشت کی بہتری کے لئے کسان کو اس کا حق دلانے کی پالیسی نہیں دی جاتی، کاشتکار نہ تو کھاد کی بوری اور بجلی سستی ہونے کے باوجود مطمئن ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسے اس کی مشقت کا صحیح معاوضہ مل سکتا ہے۔
دنیا کے جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں انہوں نے اپنی قومی آمدنی کا تقریباً دس فیصد تعلیم کے لئے وقف کر رکھا ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کے لئے بجٹ میں اڑھائی فیصد سے زیادہ نہیں رکھا جاتا۔ 18ویں ترمیم کے بعد تعلیم اگرچہ ایک صوبائی معاملہ ہو گیا ہے ، مگر اس کے باوجود وفاقی حکومت بجٹ میں ایک سمت تو متعین کر سکتی ہے، جس کے بعد صوبے بھی تعلیم کا بجٹ بڑھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کو اگر تعلیم کے شعبے پر فوقیت دی جاتی ہے، تو پھر ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک تعلیم کے شعبے میں کہیں آگے چلے گئے ہیں، ان کی شرح ،خواندگی ہماری شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ دنیا بہت تیزی سے سائنسی علوم میں ترقی کر رہی ہے، اگر ہم نے اس کے مطابق اپنی افرادی قوت کو تیار نہ کیا، تو ہم مزید پیچھے رہ جائیں گے۔ حیرت ہے کہ وزیر خزانہ نے اس حوالے سے کسی سمت کا تعین نہیں کیا اور ان کی ساری گفتگو سرمایہ داروں، کاشتکاروں، ٹیکس گزاروں اور اعداد و شمار کے گرد گھومتی رہی، حالانکہ بجٹ کسی ملک کا سالانہ میزانیہ ہی نہیں، اس ملک کے مستقبل کی ایک تصور پر بھی ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے تمام وزرائے خزانہ اعداد و شمار کے جادوگر کہلانا زیادہ پسند کرتے ہیں، انہیں اس بات سے کبھی غرض نہیں رہی کہ بجٹ کے ذریعے ایک ایسی سمت کا تعین کریں جو پاکستان کو خوشحال پاکستان کے ساتھ فلاحی، علمی اور سماجی حوالے سے بھی ایک تابناک مستقبل کی طرف لے جائے۔ اگر مَیں کہوں کہ یہ بجٹ پچھلے بجٹ سے بہتر ہے اور نہ ہی مختلف تو شاید خود اسحاق ڈار بھی اس سے انکار نہ کریں، کیونکہ برسوں سے وزارت خزانہ میں براجمان ہمارے سرکاری کارندوں نے ایک شیٹ بنا رکھی ہے، جس کے مختلف خانے اور مختلف عنوانات ہیں، ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ ہر سال اس میں نئے اعداد و شمار بھر دیتے ہیں۔ جو فرق ہوتا ہے ، وہ ہمیشہ عوام سے پورا کرتے ہیں، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہمارا ہر بجٹ مکھی پر مکھی مارنے کا ایک عمل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بجٹ آ جاتا ہے، عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ان کی زندگی پہلے سے زیادہ دشوار اور معاشی بدحالی کا شکار ہو جاتی ہے۔ سو یہ بجٹ بھی اسی فارمولے کے تحت بنایا گیا ہے، حالانکہ عوام کو امید تھی کہ پانامہ لیکس کی بلا کوٹالنے اور وزیر اعظم نواز شریف کا صدقہ اتارنے کے لئے اسحاق ڈار ہتھ ہولا رکھیں گے، مگر انہوں نے 148ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا کر ثابت کر دیا ہے کہ ان کا ہاتھ لوہار کا ہے ،سنار کا نہیں۔