’’کوئی دوسرا محمد علی نہیں آئے گا،وہ عظمت کیلئے پیدا ہوئے تھے‘‘
لوئی ول(خصوصی رپورٹ)ہفتے کی صبح جب امریکی ریاست کینٹکی کے قصبے لوئی وِل میں لوگ سو کر اٹھے تو انھیں خبر ملی کہ ان کے قصبے کے باسی اور شہرہ آفاق باکسر محمد علی انتقال کر گئے ہیں۔ویسے تو 74 سالہ محمد علی ایک عرصے سے پارکنسنز کی موذی بیماری سے نبرد آزما تھے لیکن اس کے باوجود ان کی موت نے بہت سوں کو صدمے میں مبتلا کر دیا۔آرا مشین پر کام کرنے والے کیون اشمائیل کہتے ہیں: ’میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اتنی جلدی چلے جائیں گے۔‘ اشمائیل لوئی ول میں دریا کے ساحل پر واقع محمد علی میوزیئم میں جا کر پھول چڑھانے والے اولین لوگوں میں شامل تھے۔محمد علی کے خاندان کے ایک ترجمان کے مطابق ان کا انتقال سیپٹک شاک سے ہوا۔ اگرچہ وہ اپنی اہلیہ لونی کے ہمراہ خاصے عرصے سے ایریزونا میں مقیم تھے لیکن ان کا جنازہ آئندہ جمعے کو لوئی ول ہی میں منعقد ہو گا۔39 سالہ آرنلڈ میتھس کہتے ہیں: ’جب میں نے خبر سنی میں بچوں کی طرح رو دیا۔ مجھے یہ بہت عجیب لگتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ چل بسے ہیں لیکن یہ خبر ابھی میرے دل کو نہیں لگی۔‘ میتھس میوزیئم جا کر اپنے ہیرو کی یاد میں شمع روشن کریں گے۔محمد علی کے انتقال کی خبر ہر مقامی ٹیلی ویژن اور ریڈیو سٹیشن پر تھی۔ مقامی اخبار کے پہلے صفحے پر صرف اتنا لکھا تھا: ’عظیم ترین،‘ اور ساتھ 1965 میں محمد علی کی سونی لسٹن کے خلاف میچ کی تصویر تھی۔صبح کے وقت لوئی ول کے سٹی ہال کے پرچم سرنگوں کر دیے گئے۔قصبے کے میئرگریگ فشر نے کہا: ’محمد علی پوری دنیا کی ملکیت ہیں، لیکن ان کا صرف ایک آبائی قصبہ تھا۔ لوئی ول لِپ (محمد علی) ساری دنیا سے مخاطب تھے لیکن جیسا ہم انھیں سنتے تھے ویسے کوئی اور نہیں سن سکتا تھا۔ وہ ہمارے بھائی، ہمارے چچا تھے، وہ ہمارے لیے تحریک کا باعث تھے۔‘لوئی ول میں ہر کسی کے پاس محمد علی کے بارے میں کوئی نہ کوئی ذاتی کہانی موجود ہے، چاہے وہ ان کی پسندیدہ لڑائی پر مبنی ہو، یا 3302 گرینڈ ایونیو پر واقع ان کے آبائی گھر کے بارے میں۔ اس گھر کو حال ہی میں میوزیئم کا درجہ دیا گیا ہے، اور اس کے اندر 1950 کی دہائی کا وہی ماحول دکھایا گیا جب ہے محمد علی باکسنگ کا فن سیکھ رہے تھے۔سہ پہر کے وقت تک یہ گھر غباروں، پھولوں اور تعزیتی کارڈوں سے بھر گیا۔وائلٹ اور لارنس منٹگمری سڑک کی دوسری طرف رہتے ہیں۔ وہ محمد علی کو پانچ برس کی عمر سے جانتے ہیں جب ان کا نام کیسیئس کلے تھا۔ علی اور ان کے بھائی رحمان منٹگمری کے تین چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال میں ہاتھ بٹاتے تھے، جس کے بدلے میں انھیں سینڈوچ ملا کرتے تھے۔لارنس کے پاس ایک کتبہ ہے جس پر محمد علی نے ان کے بارے میں لکھا تھا ’میرے پہلے باس۔‘لارنس نے کہا: ’مجھے دکھ ہے کہ میں نے ایک اچھا دوست کھو دیا ہے۔ لیکن دوسری طرف انھیں 30 سال سے یہ مرض لاحق تھا اور وہ سالہاسال تک اس سے نبرد آزما تھے۔‘علی ان سے ملنے اکثر آیا کرتے تھے جس کے شواہد وائلٹ کے البم سے ملتے ہیں جس میں باکسنگ چیمپیئن کی کئی تصاویر موجود ہیں جن میں وہ ان کے گھر جادوئی کرتب دکھاتے نظر آتے ہیں۔ایک نوٹ میں علی نے وائلٹ کو مخاطب کر کے لکھا: ’زندگی کا مزا لو، جتنا ہم سمجھتے ہیں اس سے زیادہ دیر ہو چکی ہے۔‘رحمان علی بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ پہنچ گئے۔ انھوں نے کہا: ’مجھے آنسو روکنا پڑ رہے ہیں۔ یہ میرے زندگی کا سب سے دکھی دن ہے۔ میرا بھائی چلا گیا، میری خواہش تھی کہ میں پہلے جاتا۔‘انھوں نے لوئی ول اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے بھائی کے مداحوں کا شکریہ ادا کیا۔ ’میں اسے بڑی عزت افزائی سمجھتا ہوں کہ میرے بھائی کو اس قدر توقیر اور پیار ملا۔ کوئی دوسرا محمد علی نہیں آئے گا۔ وہ عظمت کے لیے پیدا ہوئے تھے۔