بیٹنگ ،باؤلنگ ،فیلڈنگ اور کپتانی ناکام
پاکستان کے ٹاپ آرڈر بیٹسمینوں نے بھارت کے خلاف ابتدائی میچ میں جو کچھ کیا وہ جلد بازی ،غیر ذمہ داری اور بے وقت اونچے نیچے اسٹوکس کھیلنے کا مجموعہ تھا۔ ٹیم میں دوسینئر کھلاڑی شعیب ملک اور محمد حفیظ ہیں جن سے کپتان سمیت کوچنگ سٹا ف بھی باز پرس نہیں کرسکتا۔ ٹاس جیت کر باؤلنگ سمیت لاتعداد ایسی غلطیاں کی گئیں جو معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا کپتان بھی نہیں کرسکتا۔ ٹیم میں ہرقسم کے کھلاڑی ہوتے ہیں اور کپتان اپنی بہترین صلاحیتوں کے بال بوتے پر ان سے نتائج اور پرفارمنس حاصل کرتا ہے۔ از خود کپتان ایک سرکردہ بیٹسمین ہیں ان کے علم میں ہونا چاہیے کہ ٹیم کو اوج کمال تک پہنچانے کے لیے تن تنہا کوئی بھی کاوش یا کوشش برآور ثابت نہیں ہوسکتی۔ بھارتی باؤلرز نے بارش کے بعد دو سو اناسی (289) رنز کا 41اوورز میں دفاع اچھے اور سہل انداز سے کیا تھا۔ بھات کے خلاف بارش زدہ میچ میں کسی بھی موقع پر ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی جہاں پر یہ کہا جاسکے کہ پاکستان میچ جیتنے کے لیے کھیل رہا ہے۔
یا میچ جیت سکتا ہے۔ پاکستانی ٹیم نے فیلڈنگ، بیٹنگ اور باؤلنگ سمیت تمام شعبوں میں خراب ترین کھیل کامظاہرہ کیا۔افسوس کہ گیارہ کے گیارہ کھلاڑیوں میں سے ایک بھی کوئی ایسی پرفارمنس نہ دے سکا جسے قابل تعریف قرار دیا جاسکے۔ میرے خیال میں بھارتی کپتان کوہلی نے ٹاس کے بعد درست کہا تھا کہ اس میچ کو عام میچ کی طرح کھیل رہے ہیں۔ یعنی وہ پاکستانی ٹیم کو ایک عام ٹیم سمجھتے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں پاکستان کی طرف سے کسی بھی میچ میں یہ کمزور ترین کپتانی تھی۔ بدترین فیلڈر کو اہم ترین جگہوں پر تعینات کیا گیا۔ شعیب ملک کی موجودگی میں وہاب ریاض کو نو کے قریب اوورز کروائے گئے۔ حفیظ اگر باؤلنگ کے لیے فٹ نہیں تھے تو فخر زمان اور فہیم اشرف کو ان کی جگہ کیوں نہیں کھلایا گیا۔ اظہر علی کی ٹانگ (کاف)کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ حفیظ باؤلنگ نہیں کرسکتے تھے۔ وہاب ریاض باؤلنگ کرتے ہوئے گر پڑے اور یوں
جسمانی فٹنس کے شعبے میں بھی ٹیم بے بسی کی تصویر نظر آئی۔ وکٹ کے پیچھے کھڑے ہو کر شاباش شاباش کہنے سے جیت کے سلسلے میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ سرفراز نے بحیثیت کپتان سخت مایوس کیا۔ اہم اسٹرائک باؤلر وہاب ریاض نے نواوورز میں دس کی اوسط سے رنز دیے اسی طرح عماد وسیم نے آخری اوور میں تین چھکوں سمیت تئیس رنز دیے۔ بھارت کے بڑا سکور کرنے کے حوالے سے یہ دونوں مرکزی کردار رہے۔ عماد وسیم لمبی فلائٹس دیتے رہے اور چھکے کھاتے رہے بظاہر وکٹ خریدنے میں مصروف عمل تھے نہ کہ رنز روکنے کی کوشش کرتے۔ شاداب نے اپنی سلیکشن کو درست ثابت کیا اور وہ ان کھلاڑیوں میں سے ہیں جو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اگلے میچ میں خود کارسلیکشن ہوں گے۔ بھارتی اننگز میں بار بار ایسی صورتحال پیدا ہوئی جب پاکستان میچ پر اپنی گرفت مضبوط کرسکتاتھا لیکن کپتان نے ہمہ وقت صورتحال پر اپنی گرفت کمزور رکھی اور نہ ہی تجربہ کار کھلاڑیوں سے مشاورت کی بحیثیت بیٹسمین ان کی اپنی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم کا آغازتباہ کن ہے۔ شائقین کرکٹ کو کھلاڑیوں کے طرز عمل اور کارکردگی سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔باہر حال آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں اب پاکستان کو بھارت کے خلاف عبرتناک شکست سے سبق حاصل کرنا ہوگا۔ اور جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے خلاف بہترین کارکردگی کھانا ہوگی۔