فلسطین میں قتلِ عام اور عالمِ اسلام (3)

فلسطین میں قتلِ عام اور عالمِ اسلام (3)
فلسطین میں قتلِ عام اور عالمِ اسلام (3)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خوش قسمتی سے اس وقت مسلم ممالک کی تنظیم اور آئی سی کی سربراہی ترکی کے پاس ہے، صدر طیب ار دوان نے ٹرمپ کے اعلان دسمبر اور اب مئی میں اس پر عملی اقدام کے فوراً بعد مسلم ممالک کا سربراہی اجلاس بلایا، پانچ ماہ کے مختصر عرصے میں ہونے والے دو سربراہی اجلاسوں نے بھی بیک آواز ٹرمپ پالیسی کو مسترد کرنے کا اعلان کیا، مسلم ممالک نے اقوام متحدہ سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ مظلوم فلسطینی عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنے کے لئے وہاں حفاظتی افواج بھیجے۔

اختتامی اعلامیہ میں واضح طور پر کہا گیا : ’’فلسطین پر قابض صہیونی افواج ان تمام وحشیانہ جرائم کا ارتکاب امریکی حکومت کی پشت پناہی سے کررہی ہے، امریکا نے اسرائیل کو سیکیورٹی کونسل میں بھی جواب دہی سے بچایا اور اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرتے ہوئے فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی حکومت کی غنڈہ گردی کی حوصلہ افزائی کی‘‘۔۔۔یہ درست ہے کہ اس اہم کانفرنس میں مذمت اور غم و غصے کے اظہار کے علاوہ امریکی حکومت سمیت سب شریک جرم طاقتوں کے خلاف کوئی جرأت مندانہ اقدام کرنے کی ضرورت تھی، لیکن ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ صرف ترکی یا مزید ایک آدھ ملک نے نہیں اجتماعی طور پر ہی کیا جانا تھا۔

مسلم حکومتوں کے رویے کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجیے کہ قبلۂ اول جیسی مقدس امانت خطرے میں ہے اور اس کے لئے بلائی گئی نکاتی کانفرنس میں 57 میں سے 40 ملک شریک ہوئے، جن میں سے صرف 13 سربراہان تھے، جبکہ تین نائب سربراہان تھے، 12 ممالک کی نمائندگی ان کے وزرائے خارجہ نے کی اور گیارہ کی مزید کم درجے کے نمائندوں نے۔

یہی نہیں امریکا اور اسرائیل کے ان اقدامات کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرنے والے ملک ترکی کے بارے میں منفی پروپیگنڈا مہم شروع کردی گئی، کہا گیا کہ ترکی منافقت کررہا ہے۔

ایک طرف یہ بیان بازی، کانفرنسیں اور بڑے عوامی پروگرام کررہا ہے، اور دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھے ہوئے ہے۔ اسے تیل اور سامانِ تجارت کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ اعتراض یقیناً حقیقت پر مبنی ہے، ترکی میں مصطفےٰ کمال پاشا کے وارثوں نے باقی سب مسلم ممالک سے پہلے 1949ء ہی میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا تھا، تب سے اب تک دونوں ممالک کے مابین تجارت و تعاون کے کئی راستے کھلے ہیں، لیکن یہ بھی واضح حقیقت ہے کہ طیب اردوان حکومت کے دوران یہ دو طرفہ تعلقات اپنی بدترین صورت تک جا پہنچے۔

2010ء میں ترک سفینے ’’مرمرہ‘‘ کے ذریعے غزہ کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کے دوران کئی ترک شہری شہید کردیئے گئے۔ تین سال تک تعلقات منقطع رہے، بالآخر اسرائیل کو معذرت کرتے ہوئے تمام شہدا کی کامل دیت اور جرمانہ ادا کرنا پڑا، حالیہ امریکی اقدامات اور اسرائیلی افواج کے ذریعے قتل عام کے بعد بھی ترکی نے اسرائیلی سفیر کو تمام تر سفارتی حقوق سے محروم کرکے ذلت کے ساتھ ملک بدر کردیا۔

یقیناً ترکی کو اس سے بھی زیادہ اقدامات کرنا چاہئیں، لیکن آپ ذرا کئی دیگر مسلم حکمرانوں سے موازنہ کرکے دیکھیں، ایک طرف ترکی ہے، جس کی حکومت تمام تر اندرونی و بیرونی خطرات کے باوجود، اسرائیل سے دوری اور لمحہ بہ لمحہ تعلقات ختم کرنے کی جانب آگے بڑھ رہی ہے، اور دوسری طرف کئی مسلم حکمران ہیں جو صرف لیلائے اقتدار ملنے کے لالچ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی جانب دوڑے چلے جارہے ہیں۔

امت مسلمہ کے ہر فرد کو یہ حقیقت ہمیشہ یاد رکھنا ہوگی کہ فلسطین اور عالمِ اسلام میں وقوع پذیر حالیہ تمام تبدیلیوں کا اصل ہدف وسیع تر اسرائیلی ریاست کا قیام ہے، جس کی سرحدیں دریائے فرات سے لے کر دریائے نیل تک اور جنوب میں (خاکم بدہن) مدینہ منورہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر ساقی کوثر ﷺ کے دستِ مبارک سے جامِ کوثر حاصل کرنے کی تمنا حقیقی اور سچی ہے تو یہ سچائی عمل سے ثابت کرنا ہوگی، ایسے حکمران منتخب کرنا ہوں گے اور ان حکمرانوں کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جو قبلۂ اول کے بارے میں ہر سودے بازی اور منصوبے کو مسترد کردیں۔ ربِ ذوالجلال کا اعلان، دعوتِ عمل دیتے ہوئے حوصلہ افزائی کررہا ہے:
ان تنصر وا اللہ ینصر کم ویثبت اقدامکم (محمد 7:47) اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔(ختم شد)(بشکریہ عالمی ترجمان القرآن)

مزید :

رائے -کالم -