جمہوریت تباہ کرنے کا فن
دو روز پہلے (4جون 2018ء) ’’دی نیویارک ٹائمز‘‘ میں عباس ناصر صاحب کا ایک مضمون (صفحہ نمبر8پر) شائع ہوا جس کا عنوان تھا: ’’پاکستان میں جمہوریت کو تباہ کرنے کا فن‘‘۔۔۔
اس طرح کے کالم اور مضامین جوغیر ملکی پریس میں شائع ہوتے ہیں اور جن کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے، میری توجہ کا خصوصی مرکز بن جاتے ہیں۔ میں نے اس آرٹیکل کو پہلے تو سرسری نظر سے پڑھا لیکن جب اس کے مواد پر غور کیا تومعلوم ہوا کہ پاکستان کو غیروں سے نہیں اپنوں سے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔
مفرور صدر پاکستان یاد آئے جو ایک شعر اکثر پڑھا کرتے تھے۔۔۔ یعنی وہی: ’’مجھے خوف آتشِ گل سے ہے‘‘۔۔۔والا۔۔۔ ساتھ ہی فارسی زبان کا وہ شعر بھی نگاہوں تلے گھومنے لگا جس کا اردو ترجمہ ہے:’’مجھے غیروں سے کوئی شکایت نہیں کہ میرے ساتھ جو کچھ کیا، اپنوں نے کیا‘‘۔
من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم
کہ بامن ہرچہ کرد آن آشنا کرد
مسٹر عباس ناصر چار برس تک (2006ء تا 2010ء) روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ پھر بی بی سی کی ورلڈ سروس میں چلے گئے۔ آج کل شاید ’’الجزیرہ‘‘ ٹی وی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایک کہنہ مشق اور جہاندیدہ صحافی ہیں۔
جب 2010ء میں ان کی جگہ ڈان انتظامیہ نے مسٹر ظفر عباس کو ایڈیٹر مقرر کیا تو عباس ناصر لندن چلے گئے۔ ان کے مضامین اور کالم مختلف انگریزی روزناموں اور میگزینوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
(قارئین سے گزارش ہے کہ عباس ناصر اور ظفر عباس کو آپس میں گڈمڈ نہ کریں۔ ظفر عباس، عباس ناصر کے جانشین ہیں اور آج بھی روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر ہیں)۔
عباس ناصر نے ڈان سے اپنی پرانی وابستگی کا حق ادا کیا ہے جو وہ ایک عرصے سے (Over the Years) ادا کرتے آرہے ہیں۔ لیکن اپنے اس آرٹیکل میں انہوں نے جو یہ انکشاف کیا ہے کہ میڈیا کو سبق پڑھانے کی وجہ پاک آرمی کی وہ نو عمر قیادت ہے جس کے سینکڑوں رفیقانِ کار (آفیسرز اور سولجرز) پاک افغان سرحد پر شہید ہو گئے اور سویلین انتظامیہ ٹس سے مس نہ ہوئی!۔۔۔ نواز شریف صاحب کی نااہلی درحقیقت جس مقدمے کے نتیجے میں سامنے آئی اس کی وجہ سویلین حکومت کی یہی بے حسی تھی جو اس کے اربابِ اختیار نے فوج کے شہیدوں کے بارے میں روا رکھی۔۔۔
پہلے میں عباس ناصر کے اس آرٹیکل کے کچھ حصوں کا ترجمہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو اس طرح ہے: ’’پاکستان، اپنی 71 سالہ تاریخ میں دوسری بار اس وقت ایک جمہوری دور میں داخل ہوا جب گزشتہ جمعہ کے روز ایک ریٹائرڈ جج کو دو ماہ کے لئے بطور نگران وزیراعظم حلف دلایا گیا تاکہ وہ 25جولائی کو ہونے والے قومی انتخابات کی صدارت کر سکیں۔
انہیں برسراقتدار حکومتی پارٹی(مسلم لیگ نون) اور اپوزیشن نے مشترکہ طور پر وزیراعظم نامزد کیا تھا۔ ایک ایسا ملک جس پر 31برس تک جرنیلوں نے براہ راست حکومت کی ہو، اس میں اس صورت حال کو ایک پُرمسرت تقریب کے طور پر ہی منایا جانا چاہیے۔ لیکن اس کے برعکس پاکستانیوں کو دکھائی دے رہا ہے کہ بہت جلد ایک ایسی سرپرستانہ جمہوریت (Tutelary Democracy) تشکیل پانے جا رہی ہے جس میں ملٹری، ان سیاستدانوں کو بے اختیار بنا رہی ہے جو ملک کی خارجہ پالیسی اور قومی دفاع کے موضوعات کو جرنیلوں کی طے شدہ لائن پر چلانے سے انحراف کرتے ہیں، ایک نئی کنگ پارٹی کو سپورٹ کر رہے ہیں اور پریس کو اس بات کی سزا دے رہے ہیں جو ان کے خیالی مخالفین کی مبنی برحقیقت کوریج کا اہتمام کرتا رہا ہے۔
پاکستان کی مشکلات و مصائب کا یہ موجودہ موسم اس وقت شروع ہوا جب اپریل 2016ء میں پانامہ پیپرز میں اس وقت کے وزیراعظم کے تین بچوں کے نام آئے جن کے لئے لندن میں پُرتعیش اور مہنگی جائیدادیں خریدی گئی تھیں اور اس خرید میں رقوم کی ادائیگی کے لئے آف شور کمپنیوں کو استعمال کیا گیا۔ ان پیپرز میں نوازشریف کا نام ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔
لیکن اپوزیشن کی جماعتیں بشمول عمران خان (جو ایک دور میں کرکٹ سٹار رہے تھے) کی تحریک انصاف جو فوج کی فیورٹ شمار ہوتی ہے، اس مقدمے کو سپریم کورٹ میں لے گئیں۔
چنانچہ اپریل 2017ء میں سپریم کورٹ نے مسٹر شریف اور ان کی فیملی کے خلاف تحقیقات کے لئے ایک ٹیم تشکیل دی۔ یہ بات حیران کن تھی کہ اس ٹیم میں ملک کی دو انٹیلی جنس ایجنسیوں یعنی آئی ایس آئی (انٹرسروسز انٹیلی جنس) اور ایم آئی (ملٹری انٹیلی جنس) کے نمائندے بھی شریک تھے!
ملٹری اور سویلین حکومت کے درمیان اکتوبر 2016ء میں کشیدگی کی فضا اس وقت زیادہ تاریک ہو گئی جب مسٹر شریف نے خارجہ پالیسی اور ملکی دفاع کے ان موضوعات پر اپنی گرفت مضبوط کرنی شروع کی جن کو ملٹری اپنی جاگیر سمجھتی تھی۔
اپریل 2017ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے مسٹر شریف اور ان کی فیملی کے خلاف پانامہ پیپرز کی روشنی میں تحقیقات شروع کیں۔
تین ماہ بعد سپریم کورٹ نے اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے کے جرم میں وزیراعظم کو ان کے عہدے سے سبکدوش کر دیا۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ مسٹر شریف ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ نہیں رہے۔ یہ دونوں صفات پاکستان کے آئین کی رو سے ، اس شخص پر لاگو ہوتی ہیں جو کسی پبلک عہدے پر متمکن ہو۔
چنانچہ انہوں نے بطور وزیراعظم عہدے سے استعفے دے دیا اور شاہد خاقان عباسی کو اپنی جگہ تعینات کر دیا۔ مسٹر عباسی ان کی پارٹی میں ایک وزیر تھے۔ اب ان دنوں مسٹر شریف اور ان کی فیملی کے خلاف ایک لوئر کورٹ میں کرپشن کا مقدمہ چل رہا ہے۔
مسٹر شریف خود اس ’’سرپرستانہ جمہوریت‘‘ کے طور طریقوں کا بہت اچھی طرح ادراک رکھتے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی، جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں 1980ء کے عشرے میں ملٹری کی فیورٹ (Favorite) پارٹی تھی۔ملٹری اور مسٹرشریف کے درمیان تعلقات اس وقت زیادہ بگڑنا شروع ہوئے جب ڈان اخبار میں ایک رپورٹ شائع ہوئی۔۔۔ یہ اخبار پاکستان میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور پاکستان کا قدیم ترین انگریزی روزنامہ ہے۔ اکتوبر 2016ء میں ڈان نے انکشاف کیاکہ مسٹرشریف اور ان کے چھوٹے بھائی نے پاکستان کی ملٹری لیڈرشپ کو وارننگ دی تھی کہ بین الاقوامی برادری میں پاکستان تنہا ہوتا جا رہا ہے اور اس تنہائی کی وجہ یہ ہے کہ ملٹری، پاکستان کے دہشت گرد گروپوں کو مسلسل سپورٹ کر رہی ہے۔
مسٹرشریف قبل ازیں ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع دینے سے انکار کر چکے تھے۔ جنرل صاحبان اس بات پر ناراض تھے کہ مسٹر شریف کی یہ سرزنش (Rebuke) میڈیا میں لیک کر دی گئی تھی۔
ڈان میں شائع ہونے والی اس خبر کو لیک کرنے پر ملٹری نے ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ ملٹری کا موقف تھا کہ مسٹر شریف کی حکومت غیر ملکی دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے۔ ملٹری نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ جس کسی نے بھی یہ خبر میڈیا کو دی اور لیک کروائی ہے، اس کا نام بتایا جائے۔
سوشل میڈیا استعمال کرنے کے شوقین اور ٹیلی ویژن سے وابستہ میڈیا کے کئی لوگوں کو مسٹر شریف کی حکومت کے خلاف چند حقائق کا علم تھا جو انٹیلی جنس اداروں سے اپنی قربت کی بناء پر ان میڈیا والوں کو معلوم تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ روزنامہ ڈان، اس کے ایڈیٹر ظفر عباس اور ایک لکھاری سرل المیڈا کو بدنام کیا جا رہا ہے‘‘۔
قارئین گرامی! عباس ناصر نے اپنے آرٹیکل میں سطورِ بالا میں جو سٹوری بیان کی ہے وہ کم و بیش ہر لکھے پڑھے پاکستانی کو معلوم ہے۔ پاکستانی میڈیا میں ڈان لیکس کے اس ’’انکشاف‘‘ کے پیچھے جو ہاتھ کارفرما تھے ان کی خبر بھی ہر پاکستانی کو ہو چکی ہے۔
ڈان کے اس سابق ایڈیٹر نے جو کچھ لکھا ہے اور جس کا ترجمہ آپ نے درجِ بالا سطور میں پڑھا ہے اس میں کوئی نئی خبر نہیں۔ لیکن اس کے بعد اس اس سٹوری جو اگلا حصہ بیان کیا گیا ہے، اس کا علم پاکستان کے چند لوگوں ہی کو ہوگا۔
وہ لکھتے ہیں: ’’بہت سے نو عمر آرمی آفیسرز کہ جن کے ساتھی پاک افغان سرحد پر طالبان سے لڑتے ہوئے مارے جا چکے تھے، ان کو اس بات کا یقین تھا کہ ان کی شہادت کی ذمہ دار سازشی سویلین قیادت اور صحافی ہیں۔ ان نوجوان افسروں نے پاک آرمی کی لیڈرشپ کا سامنا کرتے ہوئے اس سے دوٹوک مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان کی اس دھوکے باز سیاسی قیادت کے خلاف اقدام کرے۔
چنانچہ مسٹر شریف کی حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ایک انکوائری ٹیم تشکیل کردے۔ اس انکوائری ٹیم نے کئی فیڈرل وزراء، ڈان کے ایڈیٹر مسٹر عباس اور ایک لکھاری مسٹر المیدا سے پوچھ گچھ کی۔لیکن ان صحافیوں نے اس خبر کے اصل منبع کا نام بتانے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے بعد جنرل راحیل شریف کی جگہ ایک نئے آرمی چیف کا تقرر ہوا اور معاملہ کچھ عرصے کے لئے ٹھنڈا پڑ گیا۔
لیکن آرمی نے نہ تو اس سازش کو کبھی فراموش کیا اور نہ ہی مسٹر شریف کو معاف کیا۔۔۔ چنانچہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کہ جس میں انٹیلی جنس کے آفیسرز بھی شامل تھے، نے پانامہ پیپرز میں لگائے گئے الزامات کی تحقیق کی اور اس طرح مسٹر شریف کے نکالے جانے کا راستہ ہموار ہوا۔ لیکن وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے اور الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگ چکنے کے بعد بھی مسٹر شریف کی مقبولیت ویسے کی ویسے ہی رہی۔
مسٹر شریف نے اپنے مقررکردہ وزیراعظم خاقان عباسی کے نام پر اور نیز اپنے چھوٹے بھائی شہبازشریف کہ جنہوں نے اب مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی تھی کے توسط سے کاروبار حکومت، اپنی ذاتی خواہشات اور پروگرام کے مطابق چلانا شروع کر دیا۔
اب انتخابات کو صرف دو ماہ باقی رہ گئے ہیں۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ایک مسلسل اور زوردار مہم شروع کر رکھی ہے اور اس بات کا اہتمام کیا جا رہا ہے کہ پولیٹیکل پراسس کے ذریعے مسٹر شریف اقتدار حاصل نہ کر سکیں اور ان کو تاریخ کے قبرستان میں دفن کر دیا جائے۔۔۔۔ گزشتہ چند ہفتوں میں اسی باعث بہت سے لوگ مسٹر شریف کی مسلم لیگ پارٹی کو چھوڑ کر مسٹر خان کی تحریکِ انصاف سے جا ملے ہیں‘‘۔
روزنامہ ڈان کے یہ سابق مضمون نگار (مسٹر عباس ناصر) اس کے بعد انکشاف کرتے ہیں کہ انٹیلی جنس سروسز کے عہدیدار، صحافیوں کو لگاتار دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ مسٹر شریف اور ان کی فیملی کے کرپشن کیسوں کے بارے میں درست رپورٹنگ سے گریز کریں۔
مزید برآں نوجوان پشتونوں کی اس تحریک کو بھی دبا دیا گیا ہے جو مطالبہ کر رہی تھی کہ بعض لوگوں کے غائب کئے جانے، ماورائے عدالت قتل اور پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں فوج نے ماضی قریب میں جو آپریشن کئے ہیں ان میں سویلین آبادیوں سے ناروا اور ظالمانہ سلوک کی کوئی رپورٹنگ نہ کریں۔ میڈیا کو بتایا گیا ہے کہ وہ اس پشتون تحریک کا مکمل بلیک آؤٹ کریں۔
اس کے بعد مسٹر عباس ناصر، جنگ گروپ کی حمائت پر کمربستہ ہو جاتے ہیں اور لکھتے ہیں: ’’جنگ گروپ، پاکستانی میڈیا کا سب سے بڑا گروپ ہے جس کے زیر کنٹرول کئی اخبارات شائع ہوتے ہیں اور جیو ٹیلی ویژن سسٹم بھی اسی گروپ کا حصہ ہے۔
اس جیو گروپ نے آرمی کے خلاف ایک مدت سے مزاحمانہ رویہ اپنایا ہوا ہے۔ دوسری طرف انٹیلی جنس کے کارندوں نے کیبل آپریٹروں کو قابو کیا ہوا ہے کہ وہ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں اس گروپ کی نشریات آف ائر کر دیں۔ چنانچہ جیو نیٹ ورک کی ریٹنگ گر چکی ہے اور اشتہاروں سے جو رقم حاصل ہو رہی تھی وہ بہت کم ہو چکی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس نیٹ ورک کے ملازمین کو تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں۔ اس صورتِ حال میں نیٹ ورک نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور فوج کی شرائط تسلیم کر لی ہیں۔
اس صورت حال میں ڈان گروپ کی آواز ملک کی تنہا مزاحمتی آواز بن چکی ہے جو ابھی تک خود مختار اور آزاد میڈیا گروپ ہے۔ ڈان کی سرکولیشن بھی ان علاقوں میں بند کی جا رہی ہے جہاں ڈان اخبار پڑھنے والوں کی اکثریت رہائش رکھتی ہے۔ نیوز ایجنٹوں کو وارننگ دی جا رہی ہیں کہ وہ بھی دیہی علاقوں میں ڈان کو تقسیم نہ کریں۔ آرمی کی دیوقامت رئیل اسٹیٹ ڈویلپر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز کو فوج کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ ڈان کو اشتہار دینا بند کر دیں۔
گزشتہ روز حمید ہارون جو ڈان کے چیف ایگزیکٹو اور ’’آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی‘‘ کے صدرہیں، انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ وہ اس قسم کے ہتھکنڈوں کے آگے سرتسلیم خم نہیں کریں گے اور اظہار رائے کی آزادی برقرار رکھیں گے۔
آج مسٹر حمید ہارون کا یہ اخبار (ڈان) گھٹنے ٹیکنے اور اپنی موت مر جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ ایک بڑا المیہ ہو گا کیونکہ پاکستان میں ڈان میڈیا گروپ وہ واحد میڈیا گروپ ہے جس میں تمام ادارتی (ایڈی ٹوریل) فیصلے صحافی کرتے ہیں، میڈیا مالکان نہیں۔۔۔ میں 2006ء سے لے کر 2010ء تک اس ڈان کا ایڈیٹر رہا ہوں۔
میرے بعد ظفر عباس آئے جو میرے دوست بھی ہیں اور جانشین بھی۔ ان کو حال ہی میں قتل کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ لیکن وہ ان تمام مشکلات کے باوجود اخبار کی اشاعت جاری رکھنے پر مصر ہیں۔ لیکن ابھرتا ہوا یہ منظر نامہ کافی خوفزدہ کرنے والا معلوم ہو رہا ہے‘‘۔