دوک ٹوک خارجہ پالیسی اپنائیں گے ، جہاں ضرورت ہوئی اہم ترین فیصلون سے بھی دریغ نہں کرینگے ، نگران وزیر خارجہ

دوک ٹوک خارجہ پالیسی اپنائیں گے ، جہاں ضرورت ہوئی اہم ترین فیصلون سے بھی دریغ ...

  

اسلام آباد(سہیل چوہدری )

 نگران وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون نے کہا ہے وہ نگران حکومت کی دو ماہ کی قلیل مدت کو خاطر میں لائے بغیر دو ٹوک اور واضح انداز میں خارجہ پا لیسی اپنائیں گے ، جہاں انہیں ضرورت محسوس ہوگی اہم ترین فیصلوں سے بھی دریغ نہیں کرینگے ، وہ اگر پالیسی تبدیل نہ بھی کرسکے تو کم از کم خارجہ پالیسی کے ایسے خدو خال ضرور کھینچ کر جانا چاہیں گے ، جن پر اگلی منتخب حکومت اگر چاہے گی تو ملک کی خارجہ پالیسی کو استوار کرسکے گی ، وہ گزشتہ روز اپنی جانب سے دفترخارجہ میں دیئے گئے افطار ڈنر کے موقع پر بے تکلفانہ اندازمیں خصوصی بات چیت کررہے تھے ،افطارڈنر میں سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ،ترجما ن دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل،چیف آف پروٹوکول صاحبزادہ احمد خان بھی موجود تھے وزیرخارجہ نے کہا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ خارجہ پالیسی میں کیا غلطیاں ہیں بلکہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں ہمارے پاس کیا آپشنز ہیں ، اور دستیاب آپشنز کی ترجیحات کا یقین کرنا ہوگا ، انہوں نے کہا کہ امریکہ سے ہمارے تعلقات اگرچہ تناؤ کا شکار ہیں ، لیکن وہ اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ سے پاکستان کے تعلقات کو بہتر کو کیا جاسکتاہے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک میں تعلقات کی بہتری کیلئے صرف واشنگٹن اور اسلام آباد کے مابین دیرینہ ایشوز کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کا بھی جائزہ اور تجزیہ کرکے یہ دیکھنا ہوگا کہ کیسے امریکی صدر کے دماغ تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے ، کیونکہ پاک امریکہ تعلقات کی 70سالہ تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک مختلف امریکی صدر کے طوپر سامنے آئے ہیں ، امریکہ سے تعلقات کی بہتری کیلئے ٹرمپ کی شخصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے پالیسی وضع کرنا ہوگی ، انہوں نے کہا کہ امریکہ نے جب افغانستان میں شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا شروع کیا تو اس وقت ہم نے امریکہ کو صحیح طورپر انگیج نہیں کیا کیونکہ اس وقت امریکہ کیلئے پاکستان سے روٹھنا اس کے مفاد میں تھا اور ہم نے امریکہ کے روٹھنے کا پورا موقع فراہم کیا ، انہوں نے امریکہ میں حالیہ تعینات ہونے والے سفیر علی جہانگیر صدیقی کو واپس بلائے جانے والے امکان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ سارے معاملے کا جائزہ لیں گے ، ان سے قابل بھی بہت سی شخصیات موجود ہیں تو وہ بہت سے لوگوں سے بہتر بھی ہونگے ، اب دیکھنا ہے کہ علی جہانگیر صدیقی کیا کارکردگی دکھاتے ہیں اور نگران وزیراعظم ناصر الملک کی پالیسی کیا ہے، وہ اپنے امور کی انجام دہی کیلئے یقینانگران وزیراعظم سے ہدایت اور رہنمائی لیں گے تاہم انہوں نے کہا کہ وہ امریکی نظام کو سمجھتے ہوئے اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے جب کچھ ٹھان لیتاہے تو امریکہ میں تعینات سفیر امریکی پالیسی کو تبدیل کرنے میں خاص کار گر نہیں ہوپاتا، انہوں نے کہا کہ یہ تاثر ہر گز غلط ہے کہ چین امریکہ کا متبادل ہوسکتاہے ، امریکہ چین سے اس وقت بھی 20سے 25سال اور روس سے 40سال آگے ہے ، انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان تو چین سے بھی بات چیت نہیں کررہا بلکہ چین اپنے مفاد میں پاکستان سے بات کررہاہے ،ایک وقت تھا کہ امریکہ بھی پاکستان کی بہتری کیلئے بہت سے منصوبے پیش کرتا رہا لیکن پاکستان نے ان سے فائدہ نہ اٹھایا، ہمیں اپنا مفاد دیکھنا چاہئے اگرچہ سی پیک چین کے مفاد میں ہے لیکن اب اس منصوبے کا آغاز ہوگیا ہے تو ہمیں اب اس منصوبے میں سے پاکستان کا مفاد دیکھنا چاہئے ، انہوں نے کہاکہ امریکہ کا نظام تعلیم دنیا میں سب سے آگے ہے اسلئے امریکیوں سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ چین کی ترقی کے آگے ہاتھ باندھ کر بیٹھا رہے گا، انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجو دمیں آیا اب ہندوستان سے توقع رکھنا کہ وہ اس پر اتفاق کرے یہ ممکن ہے نہ اس کی توقع رکھنی چاہئے لیکن اس کے باوجود ہندوستان سے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں اگرہم اس حوالے سے واضح طورپر دو ٹوک پالیسی اپنائیں ، ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہماری خارجہ پالیسی ہے کیا آخر!۔ انہوں نے کہا کہ ہم داخلی پالیسیوں میں بھی واضح نہیں انہوں نے کہا کہ امریکہ نے جب پاکستان سے بات کرنا ہوتی ہے تو اسے معلوم ہوتاہے کہ پاکستان سے 3,2مختلف آوازیں اٹھ رہی ہیں وہ اس کا فائدہ اٹھاتاہے ، انہوں نے کہا کہ ہندوستان سے دیرینہ تنازعات کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا ، جہاں تک حافظ سعید کا معاملہ ہے تو جب میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کررہا تھا تو میں نے خود ٹیلی فون کرکے حافظ سعید سے بات کی اور ان سے کہا کہ وہ اپنے کیس کی تمام تفصیلات انہیں بھیجوائیں اور پھر میں نے اقوام متحدہ میں انکا کیس کامیابی سے لڑا، لیکن ہمیں خود سوچنا چاہئے کہ کیا اس پالیسی نے ہمیں فائدہ پہنچایا یا پھر ہم مزید مشکلات کا شکار ہوئے ؟ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں ہم دو ٹوک پالیسی نہیں اپناتے جس کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوتاہے ، انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سندھ طاس معاہدہ میں پاکستان نے دور رس نتائج نہیں دیکھے لیکن کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی ہم اس ایشو پر اپنے موقف کی کامیابی کے لئے بھر پور کوشش کرسکتے ہیں ، اپنے حق کیلئے عالمی عدالت انصاف میں بھی رجوع کرسکتے ہیں ، پاکستان کے بغیر ورلڈ بینک کے مذاکرات بے معنی ہونگے ، انہوں نے کہا کہ ہندوستان ، افغانستان اور امریکہ سے تعلقات ایک ہی لڑی کا حصہ ہیں اور تینوں ممالک سے تعلقات میں بہتری آسکتی ہے ، انہوں نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ وہ نگران وزیرخارجہ ہیں اس لئے فیصلہ سازی نہیں کرسکتے ، انہوں نے استفسار کیا کہ خدانخواستہ اگر جنگ لگ جائے تو کیا وہ فیصلہ سازی کیلئے ائندہ حکومت کا انتظار کرینگے ، انہوں نے کہا کہ وہ تمام فیصلے دفتر خارجہ کے طے شدہ پیرامیٹرز کے اندر رہ کر کرینگے ، لیکن کوشش کرینگے کہ اگر پالیسی وضع کرسکیں تو کم ازکم ایسے خدو خال کھینچ دیں جن پر خارجہ پالیسی کو اسٹور کرکے ہم اپنے مقاصد حاصل کرسکیں ، انہوں نے ایک سوال کے جواب میں میثاق جمہوریت کو ’’میثاق خاندان‘‘کا نام دیا جس کا مطلب صرف دو بڑے سیاسی خاندانوں کو فائدہ پہنچانا تھا۔

عبداللہ حسین ہارون

مزید :

صفحہ اول -