کنفیوژن اور لاپروائی کے درمیان

کنفیوژن اور لاپروائی کے درمیان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان میں کورونا مریضوں کی تعداد85 ہزار سے متجاوز ہو گئی ہے۔ سندھ میں تعداد سب سے زیادہ ہے اور صوبائی وزیر صحت عذرا پیچوہو کا کہنا ہے صوبے کے ہر گھر سے مریض نکل رہے ہیں، ہسپتالوں میں بستر کم پڑ رہے ہیں،پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا ہے ایس او پیز کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی، عوام احتیاط برتیں ورنہ مارکیٹیں، بازار سیل کر دیں گے۔ پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان نے کہا ہے موجودہ صورتِ حال میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، شہری ذمے داری نبھائیں، وزیر صنعت میاں اسلم اقبال کا کہنا تھا کوتاہی برتی گئی تو مکمل لاک ڈاؤن کی طرف جا سکتے ہیں،کسی ایک دکان میں ایس او پیز کی خلاف ورزی پر پوری مارکیٹ سیل کی جائے گی، پنجاب میں ماسک نہ پہننے، پبلک مقامات پر تھوکنے، ایس او پیز پر عمل نہ کرنے پر بسوں ویگنوں والوں اور سماجی فاصلے نہ رکھنے پر جرمانوں کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
کورونا وائرس سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں دریافت ہوا، وائرس نے جتنی تیزی سے پھیلنا شروع کیا حکومت نے اتنی ہی تیز رفتاری سے حفاظتی اقدامات کا آغاز بھی کر دیا۔متاثرہ شہر کو پوری طرح لاک ڈاؤن کر دیا اور یہ77دِن تک اسی حالت میں رہا، نتیجہ یہ نکلا کہ مریضوں کی تعداد کو83 ہزار پر روک لیا گیا اور ہلاکتیں بھی محدود کر دی گئیں اب چین میں کوئی نئے کیس نہیں ہو رہے اور شہری زندگی بھی معمول پر آ گئی ہے، چین نے یہ مقصد کیونکر حاصل کیا؟ نظم و ضبط کے ذریعے، لوگوں کو گھروں میں محدود رکھ کر اور گھر گھر جا کر مریضوں کا سراغ لگانے اور اُن کا علاج کرنے سے، اس مشقت میں صبر اور ضبط و تحمل اختیار کرنا پڑا اور بے صبری کو خیر بار کہنا پڑا،اِس لئے کہا جا سکتا ہے کہ چین نے جس طریقے سے بیماری پر قابو پایا اس ماڈل کو اختیار کر کے دُنیا کے دوسرے مُلک بھی ایسے ہی نتائج حاصل کر سکتے تھے، پوری دُنیا میں وائرس کے پھیلاؤ اور اس کی روک تھام کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ کامیابی انہی کو ملی جنہوں نے طویل لاک ڈاؤن کی مشقتیں اور اذیتیں برداشت کیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ کے جن ممالک کو لاکھوں مریضوں کو سنبھالنا مشکل ہو گیا اور جہاں تابوتوں کی کمی پڑ گئی وہ بھی اب کامیابی کے ساتھ صورتِ حال سے نکل رہے ہیں،اِن ممالک نے لاک ڈاؤن اور اس کے تدریجاً خاتمے میں جو حکمت ِ عملی اختیار کی وہ بالآخر کامیاب ٹھہری۔
ہم چین کے قریب ترین ہمسائے اور ہمالیہ سے بلند دوستی کے دعویدار ہیں،لیکن ہم نے اس معاملے میں چینی تجربے سے فائدہ نہیں اٹھایا جو چینی ڈاکٹر اور دوسرے ماہرین پاکستان کے دورے پر آئے وہ یہی مشورہ دیتے رہے کہ لاک ڈاؤن کے سوا وبا پر قابو پانے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے، لیکن ہم نے اس مشورے کو سنجیدگی سے نہ لیا،اول تو لاک ڈاؤن میں تاخیر کی گئی اور جب اس کا نفاذ ہوا تو بھی یہ بہت ڈھیلا ڈھالا تھا،یعنی کسی کا دِل چاہے تو لاک ڈاؤن کر لے، کوئی گھر میں رہنا چاہے تو رہے، لیکن جن کی آزاد طبیعت ان پابندیوں کو قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہ ہوئی وہ کھلے عام گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر گھومتے پھرتے رہے ایس او پی تو یہ تھا کہ گاڑی میں دو لوگوں سے زیادہ سوار نہ ہوں گے اور موٹر سائیکلوں پر ڈبل سواری نہیں ہو سکے گی،لیکن گاڑیاں اپنی استعداد سے بھی زیادہ مسافروں کا بوجھ ڈھوتی رہیں تو موٹر سائیکلوں پر پورا پورا خاندان سفر کرتا ہوا نظر آیا،کسی نے اِن سے تعرض نہ کیا پولیس نے جہاں کہیں اُنہیں روکا یہ لڑنے جھگڑنے پر اُتر آئے،کسی کو گرفتار کیا تو رہائی کی ہدایت مل گئی، پھر وفاقی حکومت مسلسل اعلان کرتی رہی کہ لاک ڈاؤن مسئلے کا حل نہیں،اسی کشمکش میں رمضان کا مہینہ آ گیا تو عید کی خریداریوں کا جنون بھی سروں میں سما گیا، رمضان کے آخری پندرہ دِنوں میں لوگ عید خریداری کے لئے نکل کھڑے ہوئے یہ شوق قانون کی پابندیوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر پورا کیا جاتا تو شاید بچت ہو جاتی،لیکن بازاروں میں رش حسب ِ معمول رہا، لاپروائی کا جادو اب سر چڑھ کر بولنے لگا ہے تو وزیر مشیر بھی کرفیو کی باتیں کرنے لگے ہیں،وہ جنہیں یہ غم کمائے جا رہا تھا کہ دیہاڑی دار بھوک سے مر جائیں گے اب اُن سے کوئی پوچھے کہ اب اگر کرفیو لگے گا یا لاک ڈاؤن میں کرفیو کی کیفیت پیدا ہو گی تو بھوک کہیں غائب ہو جائے گی یا انسانوں کو اس کی احتیاج نہیں رہے گی؟المیہ یہ ہے کہ جب لاک ڈاؤن سخت کرنے کی ضرورت تھی اسے نرم کر دیا گیا اور اس کے لئے کیسے کیسے دلائل نہ ڈھونڈے گئے،اب جبکہ روزانہ ہزاروں نئے مریض سامنے آ رہے ہیں اور اموات کی تعداد بھی بڑھنے لگی ہے تو اضطراب و بے چینی کی کیفیت میں سخت لاک ڈاؤن کا الاپ شروع کر دیا گیا ہے۔ ٹھیک کہا تھا فارسی دانشور نے، کہ جو کچھ دانا کرتے ہیں ناداں بھی ویسا ہی کرتے ہیں،لیکن بعد از خرابی بسیار۔
اب ماسک پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے تو یہ بھی سوچا جا رہا ہے کہ جو لوگ ایسا نہیں کریں گے اُنہیں جرمانہ کیا جائے گا، ایس او پیز کی خلاف ورزی پر بھی مختلف مالیت کے جرمانے تجویز کئے گئے ہیں، فیصلہ سامنے آئے گا تو پتہ چلے گا کہ کس جرم پر کیا جرمانہ رکھا گیا ہے،برسر عام تھوکنے والوں کو بھی جرمانہ ہو گا، یہ فیصلہ اگر کیا گیا ہے تو اچھا ہے،لیکن اس پر عمل درآمد کون کرائے گا اور اگر تھوکنے والوں نے اپنی اس بُری عادت کو چھوڑنا پسند نہ کیا تو انہیں کیسے مجبور کیا جائے گا کہ وہ برسر عام نہ تھوکیں کہ اس سے بیماری پھیلتی ہے،جن زرخیز دماغوں نے یہ تجویز پیش کی اُن سے یہ بھی پوچھ لیا جاتا کہ اس پر عمل کیسے ہو گا تو شاید یہ کوئی نسخہ سامنے لے ہی آتے،کیونکہ ہمارا مُلک سنگاپور تو ہے نہیں جہاں بجھا ہوا سگریٹ اور ماچس کی تیلی برسر عام پھینکنے پر بھاری جرمانہ ہوتا ہے اور لوگ سگریٹ کا ٹوٹا ہاتھ میں چھپا کر لئے پھرتے ہیں کہ ڈسٹ بن آئے تو اس میں پھینکیں،اِس لئے یہ ضروری تھا کہ جرمانوں کا فیصلہ کرنے سے پہلے جو ایس او پیز بنائے گئے تھے اُن پر عمل درآمد کی کیفیت کا جائزہ لے لیا جاتا جہاں ڈبل سواری کی پابندی کے باوجود چار چار لوگ موٹر سائیکل پر سوار ہوتے ہوں اور کوئی اُن کی جانب نگاہ غلط انداز بھی نہ ڈالتا ہو وہاں تھوکنے والوں کو کیسے پکڑا جائے گا اور کیسے جرمانہ ہو گا؟ اِلا ّ یہ کہ کوئی قسمت کا مارا کسی ایسی جگہ تھوک دے جہاں قریب ہی دو چار پولیس والے ڈیوٹی کر رہے ہوں اور وہ اسے جھپٹ کر جرمانہ کر دیں۔
ہم نے اِن سطور میں پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ہم کاغذ پر ایس او پیز بہت اچھے بنا لیتے ہیں،لیکن اصل مسئلہ عمل درآمد کا ہے، اب جبکہ کنفیوژن اور لاپروائی کے درمیان پھنس کر ہم ایسی صورتِ حال سے دوچار ہو گئے ہیں کہ کورونا روزانہ ہزاروں نئے مریضوں کو متاثر کر رہا ہے اور سندھ کی وزیر صحت کو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ عید کے نئے کپڑے اب کفن کی شکل اختیار کر رہے ہیں تو سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے،لیکن شوقِ فضول اور بے محل اقدامات سے وائرس کا جو جن برآمد ہوا ہے وہ نہ جانے ابھی کتنے عرصے تک تباہی و بربادی کے مناظر دکھائے گا،اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

مزید :

رائے -اداریہ -