” اگر شہباز شریف کو گرفتار کر لیا جاتا ہے تو۔۔۔“ مسلم لیگ ن کیا کرنے جا رہی ہے؟ سینئر صحافی نے اندرونی کہانی بتا دی

” اگر شہباز شریف کو گرفتار کر لیا جاتا ہے تو۔۔۔“ مسلم لیگ ن کیا کرنے جا رہی ...
” اگر شہباز شریف کو گرفتار کر لیا جاتا ہے تو۔۔۔“ مسلم لیگ ن کیا کرنے جا رہی ہے؟ سینئر صحافی نے اندرونی کہانی بتا دی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (کالم: محسن گورایہ) کچھ اہم ترین لوگ بتا رہے ہیں ہے کہ نواز شریف نے وطن واپسی کیلئے پارٹی رہنماؤں، قریبی ساتھیوں اور اہل خانہ سے مشاورت شروع کر دی ہے،شریف خاندان نے ان کی وطن واپسی کی پرزور مخالفت کی ہے مگر پارٹی کے جارحیت پسند رہنماؤں نے فوری وطن جانے کے فیصلہ کی حمائت کی ہے جبکہ قریبی ساتھیوں نے حالات کا جائزہ لینے اور مناسب وقت پر وطن جانے کی تائید کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں اہم رابطوں کے بعد طے پایا ہے کہ اگر شہباز شریف کو گرفتار کر لیا جاتا ہے تو نواز شریف فوری وطن آسکتے ہیں یا مریم نواز چپ کا روزہ توڑ لیں۔ادھر نیب نے اپنی کارروائی تیز کرتے ہوئے شہباز شریف کی گرفتاری کی کوشش کی مگر کامیا بی نہ ملی اور روپوش اپوزیشن لیڈر نے ہائیکورٹ سے حسب معمول ضمانت حاصل کر لی،یوں جی کا جانا وقتی طور پر ٹھہر چکا ہے،مگر 17جون دور نہیں اور نیب کی کارروائیوں میں تیزی کا عمل جاری ہو چکا ہے،یہ بھی اطلاع ہے کہ آئندہ چند روز میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنماو¿ں سمیت بعض بڑے سرمایہ اور صنعت کار حراست میں لئے جانے والے ہیں،پیپلز پارٹی کے سندھ سے کچھ وزراء کا بھی پکڑ میں آنے کا امکان ہے۔
شہباز شریف کا نیب میں پیشی سے گریز بلا وجہ نہ تھا وہ جانتے تھے کہ اب جن کیسوں میں بلاوا آرہا ہے وہ معمولی نوعیت کے نہیں ہیں اور ان کی گرفتاری یقینی ہے جس بنا پر وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور ہائیکورٹ سے ضمانت کیلئے رجوع کر لیا،اس کے باوجود ان کی گرفتاری یقینی ہے۔ 17جون کو نیب نے ہائیکورٹ میں پیش ہو کر ضمانت میں توسیع کی مخالفت کا فیصلہ کر لیا گیا ہے،امکان ہے کہ ضمانت منسوخی کے بعد شائد احاطہ عدالت سے ہی گرفتار کر لیا جائیگا،تا ہم اس عارضی ریلیف کے بعد سنا ہے کہ نواز شریف کی واپسی ملتوی اور مریم کی از خود خاموشی میں توسیع کا مشورہ ہوا ہے،مگر دوسری طرف شہباز شریف گرفتار بھی ہونگے اور مریم نواز بھی بولیں گی اور خوب بولیں گی گرج چمک کیساتھ،البتہ نواز شریف کی واپسی بارے حتمی طور پر کچھ کہنا فی الحال ممکن نہیں۔
ملک آجکل کووڈ 19وائرس کی زد میں ہے،ٹڈی دل کا حملہ بھی حکومت کیلئے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے،ان ابترین حالات میں مسلم لیگ ن کی قیادت نے سیاسی ابتری پیدا کرنے کا منصوبہ بنایاتاکہ حکومتی توجہ کو بانٹا جا سکے اور عوامی مسائل دو چند ہو کر سامنے آئیں تاکہ حکومت مخالف سر گرمیاں تیز کر کے حکومت کو ناکام بنا کر آئندہ الیکشن میں کامیابی کی راہ ہموار کی جا سکے۔شہباز شریف کو بھی باقاعدہ منصوبہ کے تحت پاکستان بھیجا گیا تھا،ن لیگ کا خیال تھا پیپلز پارٹی کو ساتھ ملا کر قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے اور شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب کرایا جائے،مگر ماضی کی ڈسی پیپلز پارٹی ن لیگ کے ٹھسے میں نہ آئی۔ان کا موقف بھی مضبوط تھا کہ ان کی سندھ حکومت داو¿ پر لگ سکتی ہے جبکہ ن لیگ کے پاس گنوانے کو کچھ بھی نہیں،جس کے بعد منصوبہ میں تبدیلی کی گئی اور پنجاب کو گرفت میں لیکر جیسے ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو بے بس کیا گیا ایسے ہی تحریک انصاف حکومت کو لنگڑا لولا کر دیا جائے،اس مقصد کیلئے شہباز شریف نے پہلے سعد رفیق کے ذریعے چودھری پرویز الٰہی کو خیر سگالی کا پیغام بھجوایا اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں تعاون کی پیشکش کی،مگر چودھری خاندان بھی شریف خاندان کو بھگت چکا تھا لہٰذا یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھی،پرویز الٰہی نے ن لیگ کے کسی منصوبے میں شامل ہونے اور تعاون سے انکار کر دیا،جس کے بعد مریم نواز جو پہلے ہی چچا شہباز شریف سے گو مگوکی پالیسی اپنانے کی وجہ سے خفا تھیں کومیدان میں اتارنے کا فیصلہ ہوا، مگر شہباز شریف نے اپنی مدافعانہ پالیسی کو جارحانہ بنانے کی یقین دہانی کرا کے مریم کو خاموش رہنے پر قائل کر لیا۔
اب جبکہ شہباز شریف کے گرد نیب کا گھیرا تنگ ہو چکا ہے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق شہباز شریف نے بھی اپنی پالیسی تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو نواز شریف نے بھی واپسی کا اشارہ دیدیا ہے،محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی منصوبہ بندی الٹی پڑتی دکھائی دے رہی ہے،اب شہباز شریف کو نواز شریف کو علاج کے بہانے لندن لے جاتے وقت کرائی گئی تمام یقین دہانیوں کو پس پشت ڈال کر بھائی اور بھتیجی کی پالیسی کو اپنانا تھا یا واپس لندن چلے جانا تھا،لندن جانے کی ہر کوشش میں ناکامی کے بعد آخر شہباز شریف کو اپنی پالیسی میں تبدیلی بارے ہی سوچنا پڑا،اب ان کیلئے سیاسی میدان میں جگہ تب ہی بنتی ہے جب وہ بھائی اور بھتیجی کی راہ اپنا کر جارحانہ اننگز کھیلیں ورنہ مریم بھی میدان میں آنے کو تیار ہیں اور نواز شریف بھی واپسی بارے مشورے کر ہی رہے ہیں،دوسری صورت میں شہباز شریف کو پارٹی میں اپنا مضبوط دھڑا شو کر کے اپنی حیثیت تسلیم کرانا ہو گی،مگر اب تک شہباز شریف پارٹی میں وہ مقام حاصل نہیں کر پائے جو مریم نے چند پریس کانفرنسوں اور تقاریر سے حاصل کر لیا تھا۔
یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اب نیب کی کارروائیوں کو روکنا کسی صورت ممکن نہیں،ن لیگ کے حکومت کو کمزور کرنے کے تمام منصوبے اپنی موت آپ مر چکے ہیں،اپوزیشن کی کسی قابل ذکر جماعت کی بھی ن لیگ کو حمائت حاصل نہیں رہی،یہاں تک کہ فضل الر حمٰن بھی ہاتھ سے نکل چکے ہیں اور اب لیگی قیادت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں،اب سیاست بچانے کا شریف خاندان کے پاس ایک ہی چارہ ہے نواز شریف واپس آئیں یا مریم نواز عملی میدان میں نکلیں،نواز شریف کی واپسی پر گرفتاری یقینی ہے،لہٰذا انہوں نے اپنے ڈاکٹر عدنان کو پاکستان بھیجا ہے وہ مریم نواز اور شہباز شریف کیلئے نواز شریف کے خصوصی پیغامات لیکر آئے ہیں،ان کا یہ کہنا کہ ان کے ویزے کی مدت ختم ہو گئی اس لئے وہ واپس آئے قطعی بے بنیاد ہے، کورونا کی وجہ سے برطانوی حکومت نے ویزا جاری کرنے کا سلسلہ روک رکھا ہے اور جو برطانیہ میں موجود ہیں اور ویزا کی مدت ختم ہو چکی ان کو بھی رہائش کی اجازت دیدی گئی ہے،ڈاکٹر عدنان نے مریم نواز کو نواز شریف کا پیغام دیا ہے کہ چچا پر دباؤ رکھو کہ آپ نہ بولے تو میں لب کھولوں گی مگر عملی طور پر ابھی خاموش رہو،جبکہ نواز شریف کی وطن واپسی کی بھی مختلف ذرائع سے خبریں اڑاتے رہو تاکہ حکومت کو بھی دباؤ میں رکھا جائے اور شہباز شریف کو بھی۔
اب دیکھنا یہ ہے کام کس کا تمام ہونے کو ہے،ان کا جو دل کے درد کے باعث لندن میں ہیں یا جو کینسر کے علاج کیلئے لندن جانے والے ہیں،ن لیگ میں دھڑے بندی ہوتی ہے یا سلے لب کھلتے ہیں۔