اخلاق کا تقاضا اور ”یورینیم کی سمگلنگ“
دو تین روز سے بار بار خیال آتا تھا کہ مجوزہ ”میڈیا اتھارٹی“ بل کے حوالے سے عرض کروں، ہر روز کسی نہ کسی دوسرے موضوع کی وجہ سے یہ معاملہ ٹلتا رہا۔ خیال تھا کہ آج لکھ لوں گا۔ لیکن ایک اور اہم مسئلہ سامنے آنے پر اسے پھر ملتوی کرنا پڑا۔ اب تو یہی خیال ہے کہ شاید اس حوالے سے اپنی رائے نہ دے سکوں کہ میرے جو تحفظات ہیں۔ وہ ماضی سے جڑی جدوجہد کے حوالے سے ہیں کہ بے روز گاری اور جیل کی صعوبتیں برداشت کی تھیں اور الحمد اللہ کامیاب ہو گئے تھے کہ بھٹو دور میں ایوبی پریس اینڈ پبلیکشنز آرڈی ننس نہ صرف منسوخ ہوا بلکہ 1973ء میں نیوز پیپرز ایمپلائز (کنڈیشنر آف سروس) ایکٹ 1973ء بھی منظور ہوا۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی اور اس کا سہرا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو جاتا ہے۔ آج پھر وہی دور پلٹ کر آ گیا ہے۔ لیکن میرا دکھ یہ ہے کہ آج وہ فیڈرل یونین ہی موجود نہیں۔ بلکہ اس کے نام سے پانچ چھ گروہ کام کر رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک اب معیشت کے تمام شعبوں کی نمائندہ تنظیموں کی مشترکہ کمیٹی کا حصہ ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا اور ہمیشہ وقتی ثابت ہوا، میں نہیں چاہتا کہ اس مرحلے پر جو یقیناً نازک ہے اور ”آزادی صحافت“ سے جڑا ہوا ہے۔ اپنے تحفظات بیان کر کے یہ الزام سرلوں کہ جدوجہد سبوتاژ کرنے والوں میں ہوں۔ اس لئے اظہار خیال سے گریز کرتا ہوں اور صرف اتنا عرض کروں گا کہ مجوزہ آرڈی نینس جو بظاہر وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری کا ”برین چائیلڈ“ ہے۔ بڑے دور رس نتائج و مضمرات کا حامل ہوگا۔ اس لئے کسی بھی صورت مشترکہ جدوجہد پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے میں یہ عرض کر دوں کہ فواد چودھری نے اپنے مقاصد کو چھپایا نہیں۔ وہ جب پہلی مرتبہ وزیر اطلاعات بنے تو تب یہ خیال یا تصور پیش کیا اور ان کے مطابق میڈیا (مجموعی) کا قبلہ درست ہونا ضروری تھا وہ اس وزارت سے الگ ہوئے تو یہ خیال بھی ٹھپ ہو گیا، اب وہ پھر واپس آئے ہیں، تو پھر سے یہ سانپ پٹاری سے باہر نکل آیا ہے شاید جن کا خیال تھا ان کے مطابق فواد چودھری ہی موزوں تر وزیر ہیں، جو یہ ”فریضہ“ سرانجام دے سکتے ہیں بہر حال میں تو (ہم بھی دیکھیں گے) کے مصداق دیکھوں گا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہوتا ہے کہ میرے نزدیک میرا ملک اور عوام بہت بڑے دور اہے، بلکہ چوراہے پر کھڑے ہیں اللہ اس کی خیر رکھے اور ترقی دے کہ ہم عوام کا سب کچھ یہی ہے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے کچھ نہ کچھ کہہ ہی دیا معذرت خواہ ہوں کہ محترم قدرت اللہ چودھری پھر یہی کہیں گے کہ ایک کالم ایک ہی موضوع پر ہونا چاہئے جو درست بھی ہے۔ تاہم میرے خیال اور تصور کے مطابق موضوع بالا کا تعلق اگر قومی سلامتی سے ہے تو موضوع ذیل کا تقاضہ بھی یہی ہے، خبر ہے کہ بھارت کے ”جھاڑ کھنڈ“ میں ایک گروہ پکڑا گیا، جس کے قبضہ سے 6 کلو اعلیٰ ترین یورینیم برآمد ہوا۔ بھارتی تفتیش کاروں ہی کا کہنا ہے کہ یہ گروہ اس اعلیٰ قسم کے یورینیم کو کسی نا معلوم شخص کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا، ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی تھوڑا عرصہ قبل ایسا ہی ایک گروہ پکڑا گیا تھا اور اس سے 7 کلووزنی یورینیم برآمد ہوا، بھارتی تحقیق کاروں کا اس گروہ کے بارے میں بھی یہی کہنا تھا کہ یورینیم نا معلوم پارٹی کو فروخت کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، پاکستان کے دفتر خارجہ نے بلا شبہ درست تنقید کی اور غیر قانونی خرید و فروخت کی مذمت کرتے ہوئے عالمی اداروں سے نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ غیر قانونی عمل سے یہ مادہ کسی تخریب کار گروہ کے قبضہ میں چلا گیا تو بڑے خطرات اور خدشات ہوں گے کہ اس سے ایسے عوام دشمن ہتھیار تیار کئے جا سکتے ہیں جو انسانیت اورارض کیلئے تباہ کن ہوں گے۔ پاکستان کا احتجاج بلا جواز نہیں اور ایٹمی صلاحیت کی نگرانی اور جانچ کرنے والی ایجنسی کا فرض ہے کہ وہ بھارت سے استفسار کرے اور اس انسانیت سوز مادے کے یوں ظاہر ہونے اور سمگلنگ کے انکشاف کا نوٹس لے جہاں تک عالمی ایٹمی پروگراموں کا تعلق ہے تو یہ سب ایک عالمی ضابطہ اخلاق کے دائرہ کار میں ہیں۔ گو امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین، بھارت اور پاکستان ایٹمی صلاحیت کے مالک ہیں تاہم یہ عالمی ایجنسی (ایٹمی نگرانی) کے دائرہ میں ہیں اور معائنوں کے لئے بھی پابند ہیں۔ امریکہ نے ایران کو یہ صلاحیت حاصل نہیں کرنے دی اور عراق کے خلاف وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگا کر اسے تہس نہس کر دیا اور آج اسی عراق کی آزادی نگرانی سے مشروط ہے۔ جبکہ صدر صدام حسین کے دور میں یہ ایک طاقتور ملک گردانا جاتا تھا۔ چنانچہ یورینیم کی دوبارہ برآمدگی تشویش ناک ہے تو عالمی ایجنسی کو اس کا نوٹس لینا اور دنیا کے بڑے ممالک کو زور دینا چاہئے کہ اس دھندے (یورینیم فروشی) کے تمام کرداروں کا سراغ لگا کر ان کو قرار واقعی سزا دی جائے اور مستقبل کے لئے ایسے تحفظات کا اہتمام کیا جائے کہ ایسی خطرناک واردات نہ ہو سکے۔اس حوالے سے میں اصرار کرتا ہوں کہ پاکستان بہت ذمہ دار ملک ہے اس کے تمام حکمرانوں نے اس پروگرام کا تحفظ کیا محترمہ بے نظیر بھٹو تو بہت متجسس تھیں اور ان کے تصور میں نہیں تھا کہ ایسا ہو، وہ بہت ہی محتاط تھیں اس سلسلے میں ایک ذاتی تجربے کا ذکر کرتا ہوں جس سے ثابت ہوگا کہ محترمہ کس قدر حساس اور ذمہ دار تھیں۔
میرے کزن اور چھوٹے بہنوئی میاں مشتاق احمد کے ہم جماعت اور دوست ”سوبی“ بڑے حساس پاکستانی اور درد دل والے ہیں وہ ماسٹرز تک تعلیم یافتہ ہیں اور ان کے موضوعات زمین اور اس کی ہیئت و پیدائش کی تحقیق والے بھی ہیں میں ان کا ذکر 1988ء میں محترمہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کر چکا ہوا ہوں کہ قرارداد کی ناکامی میں ان کا بھی حصہ تھا۔ بے نظیر بھٹو شہید ہی کی وزارت عظمیٰ کا دور تھا سوبی نے ان سے رابطہ کر کے بتایا کہ اس وقت لاہور کے پنج ستارہ ہوٹل میں دو اجنبی ٹھہرے ہوئے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس اعلیٰ درجہ کا تین کلو یورینیم ہے۔ اور وہ یہ حکومت پاکستان ہی کو دینا چاہتے ہیں معاوضہ بھی حکومت کو نہیں دینا ہوگا بلکہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ایک چٹ دیں گی۔ اس کے عوض ایک مخصوص بنک وہ رقم ان کو ادا کر دے گا جو بھٹو کے دوست نے رکھوائی ہوئی ہے۔ مطالبہ تھا کہ جہانگیر بدر (مرحوم) سے کہہ کر محترمہ سے بات کروا دی جائے۔ مجھ تک بات آئی قومی جذبہ سوار ہوا اور ڈاکٹر جہانگیر بدر سے کہہ بھی دیا، محترمہ کا واضح جواب تھا پاکستان کسی قسم کی غیر قانونی ا ور غیر اخلاقی حرکت کا مرتکب نہیں ہوگا ایسے حضرات کو تو گرفتار ہونا ہوگا، وہ لوگ جواب پا کر فرار ہو گئے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ پاکستان انتہائی ذمہ دار ہے۔ بھارت جیسے انتہا پسند اور اخلاق سے عاری ملک میں ایسا ہونا تشویش ناک ہے۔ عالمی برادری کو نوٹس لینا چاہئے۔