پاک چین دوستی کا سفر 

  پاک چین دوستی کا سفر 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان،عوامی جمہوریہ چین کی ریاست کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل ہے۔پاکستانی قیادت نے اکتوبر1949 میں چین کی آزادی کے اعلان کے بعد سرد جنگ کے دور میں جب مغربی ممالک خصوصاً امریکہ اشتراکیت کے خلاف ہر محاذ پر نہایت زور و شور کے ساتھ صف آرا تھے شہید ملت کی حکومت کی جانب سے چین کو تسلیم کرنا اور بعد ازاں دونوں ممالک کے مابین سفارتخانوں کا تبادلہ وہ اقدام تھے جنہوں نے پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی مضبوط بنیاد قائم کی جس کا سفر آج بھی جاری ہے بلکہ اس میں روز بروز باہمی روابط کے فروغ کے نئے در کھلتے جا رہے ہیں۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری CPECان مشترکہ اقدامات کی روشن مثال ہے۔ 1950ء کی دہائی کے اولین سال میں جب مغرب نے عوامی جمہوریہ چین کی حقیقی ریاست کے بجائے چیانگ کائی شیک کی قوم پرست حکومت کو جو فارموسا یا تائیوان تک محدود تھی، کو متبادل کی حیثیت سے تسلیم کر رکھا تھا اور نام نہاد قوم پرست چین کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں ویٹو پاور کے ساتھ مستقل نمائندگی دی ہوئی تھی جس کا اختتام اس وقت ہوا جب1971ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وفد کے قائد محمود علی نے عوامی جمہوریہ چین کی رکنیت کی قرارداد پیش کرکے منظور کرائی۔ قبل ازیں عوامی جمہوریہ چین کے امریکی قیادت کے ساتھ مکالمے کی ابتدا میں بھی پاکستان کا اہم کردار ہے جب امریکی  وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان کے راستے چینی قیادت سے گفتگو کیلئے سفر اختیار کیا تھا۔ بعد ازاں اس کا اعادہ امریکی صدر رچرڈ نکسن نے کیا۔


عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے ہی پاک چین دوستی کا سفر رکاوٹوں کے باوجود بتدریج جاری رہا۔ 1957ء میں جب پاکستان امریکہ کا باقاعدہ حلیف تھا۔وزیر اعظیم حسین شہید سہروردی اور وزیر اعظم چو این لائی نے ایک دوسرے کے ممالک کے سرکاری دورے کئے جو سرد جنگ کے ماحول میں بظاہر ایک مشکل اقدام تھا۔1960ء کی دہائی کے وسط میں پاکستان اور چین کے درمیان سیاسی روابط میں مزید اضافہ ہوا جب الجزائر کی نوآزاد ریاست کے سربراہ احمد بن بیلا کی دعوت پر چو این لائی،ڈاکٹر سوئیکارنو اور ایوب خان نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے جمال عبدالناصر کے ساتھ تیسری دنیا کی کانفرنس میں شرکت کیلئے الجزائر جانا تھا۔اس کانفرنس کے ایجنڈا میں تیسری دنیا کے ترقی پذیر اور غیر وابستہ ممالک کی علیحدہ تنظیم کے قیام کا مقصد شامل تھا۔تیسری دُنیا کی علیحدہ اقوام متحدہ کا پروگرام بھی تھا۔چو این لائی،ڈاکٹر سوئیکا رنو اور ایوب خان مصر پہنچے تاکہ جمال عبدالناصر کے ہمراہ کانفرنس میں شرکت اور اس کے ایجنڈے کو بروئے کار لانے کیلئے الجزائر پہنچیں مگر ابھی وہ روانہ ہی نہ ہوئے تھے کہ اس دوران اچانک الجزائر میں احمد بن بیلا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور اس طرح تیسری دنیا کی اقوام متحدہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔صدر احمد بن بیلا کی حکومت کو ہٹانے کے لئے بیرونی آشیرباد کے ذریعے اندرونی عناصر کو استعمال کیا گیا۔تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ میں بر سراقتدار مستقل ممالک جن کو اس ادارے کی کسی بھی کارروائی یا اقدام کے طور پر مسترد کرنے کا یکطرفہ اختیار حاصل تھا،یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ ایک اور اقوام متحدہ قائم ہو جائے۔ عوامی جمہوریہ چین اس وقت تک اقوام متحدہ کا رکن نہیں بنا تھا۔


پاکستان اور چین کے مابین گہرے سیاسی تعلقات کے ساتھ ساتھ بامعنی اقتصادی تعلقات کا سفر بھی تاریخ کا نمایاں باب ہے۔ چین نے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں قابل قدر کردار انجام دیا ہے۔خاص طور پر صنعتی شعبے میں چین کا تعاون انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ہیوی مکینیکل کمپلیکس اس کی ایک بڑی مثال ہے جبکہ دفاعی شعبے میں بھی چین کا تعاون نمایاں ہے۔ پاک فضائیہ میں JFتھنڈر کی شمولیت اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اب جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری پر تیزی کے ساتھ کام جاری ہے توقع ہے کہ جوں جوں راہداری کے مراحل طے ہوتے جائیں گے پاکستان اور چین کے تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہو جائیں گے۔جموں و کشمیر کے بین الاقوامی تنازعے میں چین کا تعمیری کردار اس کی ایک روشن مثال ہے جبکہ حال ہی میں فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف چین کی سفارتی پیش رفت بھی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ چین ہر مشکل وقت میں تیسری دنیا کی اقوام کے ساتھ پامردی کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔پاک چین دوستی کا ذکر ہو مگر پروفیسر احمد علی کے اس تناظر میں کلیدی کردار کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ سخت نا انصافی ہوگی۔لیاقت علی خان نے بیجنگ میں پاکستانی سفارتخانہ کھولنے کیلئے جس شخصیت کا انتخاب کیا وہ پروفیسر احمد علی تھے۔ وہ چین کی آزادی سے ایک سال قبل1946سے1948 تک نیو چائنا سینٹرل یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کرتے رہے تھے جس کی وجہ سے چین کے دانشور حلقے  میں نہ صرف جانے پہچانے جاتے تھے بلکہ سیاسی سطح پر بھی ان کے روابط وسیع تھے۔انہوں نے قدیم چینی زبان کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا جو شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ پروفیسر احمد علی کو کمیونزم کے نظریات کا بھر پور ادراک تھا۔وہ برصغیر میں ترقی پسند ادب کی تحریک کے بانیوں میں شامل تھے۔ پروفیسر احمد علی نے چین کے دارالحکومت میں پاکستانی سفارتخانے میں بحیثیت ناظم الامور اپنے غیر معمولی سفارتی کیریئر کا آغاز کیا۔ان کی کاوشوں سے پاکستان اور چین کے دوستانہ تعلقات کو ایک مستحکم بنیاد فراہم ہوئی جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بیجنگ میں پاکستانی سفارتخانے میں منعقد ہونے والی یوم آزادی پاکستان کی پہلی تقریب میں چین کے وزیر اعظم چو این لائی بطور خاص شریک ہوئے تھے۔چین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے فروغ میں پاکستان کی شراکت بھی اہمیت کی حامل ہے۔پاکستان نے کبھی امریکہ کے دو چین نظریہ کو تسلیم نہیں کیا۔پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز ان اولین فضائی کمپنیوں میں شامل ہے جنہوں نے عوامی جموریہ چین کے مختلف شہروں میں اپنی پروازوں کا اہتمام کیا تھا جس کے ذریعے سرد جنگ کے انتہائی کٹھن دور میں چین کو بیرونی دنیا خاص طور پر افریقی ممالک سے اپنے تعلقات استوار کرنے کا موقع ملا تھا۔پاکستان اور چین کے مابین دوستانہ مراسم کے سفر میں تواتر کے ساتھ آنے والی حکومتیں جن میں ذوالفقار علی بھٹو،میاں نواز شریف،محترمہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی غیر جمہوری حکومتیں بھی شامل تھیں لیکن چین کے حوالے سے سب کی پالیسی یکساں تھی اور آج بھی ملک کی سیاسی پارٹیاں،ان کی قیادت اور مقتدر ادارے سب اس حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -