اعداد و شمار اور زمینی حقائق
چند روز قبل نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں ایسا ”کرشمہ“ ہوا جسے نہ تو آئی ایم ایف سمجھ پا رہا ہے، نہ ہی ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کو سمجھ آ رہا، نہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں سمجھ رہی ہیں عام پاکستانیوں کو تو خیز کیا سمجھ آئے گی لیکن حکومت اس پر بضد ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہی ہے وہ سب سچ ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ قومی اکاؤنٹس کمیٹی نے اندازہ لگایا ہے کہ رواں مالی سال کی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.94 فیصد ہوچکی ہے۔ آئی ایم ایف میں پاکستان پر پہلے بھی اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کا الزام لگتا رہا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ اس کی ایک مثال تو ہمارے کورونا کیسسز ہی ہیں۔ پہلی لہر میں تو کوئی پیٹ درد کے لیے ہسپتال جاتا تھا تو اسے بھی کووڈ19 کا مریض قرار دے دیا جاتا تھا اس کے بعد ابھی تیسری لہر گزر رہی ہے۔ اعداد و شمار میں ہلکی پھلکی اونچ نیچ تو ہر حکومت ہی کرتی رہی ہے لیکن اس بار تو حد ہوگئی ہے۔ وزارت خزانہ نے موجودہ مالی سال کے لیے شرح نمو کا ہدف 2.1 فیصد رکھا تھا۔ سٹیٹ بینک نے اندازہ لگا رکھا تھا 3 فیصد تک شرح نمو ممکن ہے۔ آئی ایم ایف نے اسے 2 فیصد پر رکھا تھا، جب کہ ورلڈ بینک کا اندازہ 1.5 فیصد کا تھا۔جب ادارہ شماریات نے 4 فیصد شرح نمو کا اعلان کیا تو سننے والوں کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے۔ یہ بالکل ایسا تھا جیسے کوئی بچہ آکر کہے کہ میں ابھی ہوائی جہاز چلا کر آیا ہوں، جبکہ موجودہ حکومت کے گزشتہ تین سال میں اوسطا شرح نمو 1.75 فیصد بنتی ہے۔ ہماری اکاونٹس کمیٹی کی میٹنگ، منسٹری آف پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے سیکرٹری کی صدارت میں ہوئی، جب ادارہ شماریات نے 4 فیصد گروتھ ریٹ کی رپورٹ دی تو وزارت خزانہ کے نمائندہ ڈاکٹر امتیاز احمد اور سٹیٹ بینک کے چیف کو پیغام دیا گیا کہ ان اعداد و شمار کو تسلیم کیا جائے۔ ہماری بیوروکریسی کی بڑی پہلے سے روایت ہے وہ سیاسی فیصلوں کے آگے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ اس اجلاس کو دو گھنٹے کے لیے برخاست کر دیا گیا۔ جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو 4 فیصد کی بجائے 3.94 فیصد پر اتفاق ہوگیا اور پھر پورے ملک میں مبارک باد کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ ہم نے کووڈ 19کے ہوتے ہوئے بھی 3.94 فیصد گروتھ حاصل کی ہے۔
عوام معیشت کی تباہی کا اندازہ بے روزگاری، مہنگائی، آٹا چینی، بجلی گیس، ادویات، پھلوں، سبزیوں، گوشت، مرغی، انڈے اور تیل کی قیمتوں سے لگا سکتے ہیں۔ معیشت کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والا پاکستانی یہ بخوبی جانتا ہے کہ یہ شرح نمو کاغذی ہے۔ یہ بھی بہت سننے میں آ رہا ہے کہ اس سال پاکستان کی برآمدات میں پچھلے سال کی نسبت تین گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اپریل 2020 میں کووڈ 19 نے تقریباً پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا تھا۔ پوری دنیا میں معاشی بحران آگیا تھا، چین جیسا ملک بھی بری طرح پھنسا ہوا تھا اور پاکستان نے تو پٹرول کی درآمد ہی بند کر رکھی تھی، پھر سمجھ نہیں آتا ایکسپورٹس میں تین گنا اضافہ کیونکر ہوا ہے۔ اعلی حکام نے پتا نہیں کونسی جادوئی چھڑی کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ ترسیلات زر میں اضافے کی وجہ مہنگائی ہے کیونکہ لوگ اب اپنے گھر والوں کو اخراجات کے لئے پہلے سے زیادہ پیسے بھیجنے پر مجبور ہیں، مزید براں ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے زرمبادلہ روایتی ذرائع کی بجائے قانونی چینلز سے آرہا ہے -ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کا پہیہ ضرور چل پڑا ہے مگر یاد رہے کہ اس کی وجہ بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں کو رونا کے سبب ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بحران ہے۔ یہ ایک سنہری موقع تھا کہ ہم اپنی برآمدات بڑھاتے مگر کپاس کی پیداوار پچھلے سال کے مقابلے میں 28 فیصد کم ہونے کی وجہ سے چینی اور گندم کے بعد اب کپاس بھی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔