کتابوں سے ملاقاتیں
قلم اٹھایا ہی تھا کہ سامنے میز پر پڑی کتابوں نے اپنی طرف توجہ مبذول کرا لی۔ برادرم ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی خود نوشت سوانح حیات”عمر رواں“ محترم ذوالفقار احمد چیمہ کے مزاحیہ اور طنزیہ مضامین کا مجموعہ ”پس پردہ“ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے سابق آنریری مجسٹریٹ ملک عارج حسین کے مضامین کا مجموعہ”فرزند ِ سیالکوٹ کی پکار“اور مرحوم سردار محمد چودھری کی خود نوشت ”جہان حیرت“ کا تازہ ایڈیشن سامنے تھے۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ایک طالب علم رہنما کے طور پر ابھرے اور اب ماشاء اللہ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ہیں۔مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کے چشم و چراغ، ان کی خود نوشت میں بہت کچھ ایسا ہے جس کا مطالعہ پاکستانی سیاست اور صحافت کے طالب علموں کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گا۔ڈاکٹر صاحب کی خود نوشت پر کئی دوستوں نے کالم لکھے ہیں۔ان کے برادرِ بزرگ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے تو اسے سوانحی ادب کے عالمی ذخیرے میں اضافہ قرار دیا ہے۔ حامد میر صاحب نے اس میں موجود جنرل رانی کے تذکرے سے لطف اٹھایا ہے، برادرم خورشید ندیم کو بھارتی وزیراعظم کے دورے کے خلاف مظاہرانہ سرگرمیاں مزا دے گئی ہیں۔ ذاتی طو پر بھی مَیں نے اسے ایک ناول کے طور پر پڑھا ہے۔ ڈاکٹر پراچہ نے سادگی اور آسانی کے ساتھ وہ کچھ بیان کر دیا ہے، جو ان کے ساتھ پیش آتا رہا،جو وہ دوسروں کے ساتھ کرتے رہے، یا دوسروں کو کرتا دیکھتے رہے۔ فرید پراچہ لڑکپن میں جس راستے پر چلے، اب تک اسی پر محو ِ سفر ہیں، اور جماعت اسلامی کے قائدین کی صف اول میں ممتاز ہیں۔ان کی ذات یہ پیغام دے رہی ہے کہ جب تک جدوجہد اور کمٹ منٹ کی بنیاد پر آگے بڑھنے والے کارکنوں کی پذیرائی نہیں ہو گی،ملکی سیاست کا چہرہ اُجلا نہیں ہو سکے گا۔ اُدھار کے چہرے مانگنے سے اقتدار میں تو آیا جا سکتا ہے، لیکن جوہری تبدیلی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔
ذوالفقار چیمہ کو ایک دیانتدار، باکردار، اور باوقار پولیس افسر کے طور پر تو سب ہی جانتے ہیں۔ وہ جہاں بھی گئے، اپنا نقش جمایا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے کالم نگار کے طور پر شہرت پائی، اور اب جو ان کا تازہ مجموعہ شائع ہوا ہے، تو وہ مزاح نگاروں کی صف ِ اول میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ انور مسعود صاحب کے بقول: اکیسویں صدی کے دلچسپ واقعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک نہایت نامور بیورو کریٹ اور مثالی پولیس افسر جناب ذوالفقار احمد چیمہ نے اکیس مزاحیہ مضامین تحریر کر ڈالے ہیں۔ گویا نثری مزاح میں یہ اکیس توپوں کی سلامی ہے۔ان الفاظ کے بعد ذوالفقار چیمہ صاحب کی مزاح نگاری پر کچھ اور کہنے کی گنجائش نہیں رہتی،وہ بائیسویں گولے کے طور پر ہماری سلامی قبول فرمائیں۔
”فرزند ِ سیالکوٹ کی پکار“ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ملک عارج صاحب نے آغاز ہی میں صاف صاف لکھ دیا ہے:مَیں ادب کے معاملے میں صفر ہوں۔ میری معلومات بہت محدود ہیں، میرے پاس الفاظ کا ذخیرہ نہیں۔ اردو گرائمر سے بالکل نابلد ہوں۔اس کے باوجود لکھ رہا ہوں۔ اپنے پاس سے کچھ نہیں لکھا، جو دیکھتا رہا، سنتا رہا،محسوس کرتا رہا، وہی کچھ لکھ دیا ہے۔ملک صاحب کے مضامین اس انکساری کے اظہار کے باوجود خاصے کی چیز ہیں،ان سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے، اپنی اور دوسروں کی اصلاح کے جذبے کو نیا حوصلہ مل سکتا ہے۔
”جہان حیرت“ پنجاب کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس مرحوم سردار محمد چودھری کی خود نوشت ہے، جس میں ہماری سیاست اور تاریخ کے کئی ایسے گوشے سمٹ آئے ہیں،جن تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ایک پولیس افسر کے طور پر ان کے مشاہدات اور تجربات بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبورکر دیتے ہیں۔ یہ خود نوشت انگریزی زبان میں ”دی الٹی میٹ کرائم“ کے زیر عنوان شائع ہوئی تھی، اور ان کی زندگی ہی میں اُردو کے قالب میں ڈھل گئی تھی۔چند دلچسپ اقتباسات ملاحظہ ہوں:
لاہور میں چارج چھوڑتے وقت میں اس بات پر خوش ہو رہا تھا کہ مارشل لاء ہیڈ کوارٹرز کے وحشت ناک ماحول سے جان چھوٹ گئی۔ اس وقت میں یہ احساس نہیں کر سکا کہ سپیشل برانچ (راولپنڈی) کا ایس پی بننے کے بعد میں جوڑ توڑ، جہالت اور ہٹ دھرمی کے عظیم تر مرکز میں داخل ہو جاؤں گا۔مَیں نے 1971ء کے منحوس اور بھیانک سال کے پہلے مہینہ میں نئے منصب کا چارج سنبھالا۔ میری ذمہ داریوں میں صدر کی ذات اور ایوانِ صدر کی سیکورٹی شامل تھی۔ صدر کے ذاتی محافظ (Gunmen) میرے سٹاف میں سے تھے۔ میں راولپنڈی ڈویژن کی سپیشل برانچ کے لیے سیاسی اور سلامتی سے متعلق خفیہ معلومات حاصل کرنے کا ذمہ دار بھی تھا۔ اسلام آباد بھی میرے دائرہ اختیار میں شامل تھا۔اس وقت ایوانِ صدر ہر قسم کے لوگوں کا گڑھ بنا ہوا تھا۔ صدر پر لے درجہ کا شرابی اور عورتوں کا رسیا تھا۔ اس کی سیکیورٹی کا انچارج کرنل ہم جنس پرست تھا، البتہ صدر کے ملٹری سیکرٹری میجر جنرل اسحاق نہ صرف پکے نمازی بلکہ تہجد گزار تھے۔اس کے علاوہ وہاں دلال اور طوائفیں تھیں اور بعض کو انتہائی اہم مرتبہ حاصل تھا۔ ان میں اقلیم اختر رانی، مسز کے این حسین اور لیلیٰ مظفر سرفہرست تھیں۔
اقلیم اختر کو جسے جنرل یحییٰ خان کی قریب ترین دوست ہونے کے باعث عام طور پر جنرل رانی کے نام سے پکارا جاتا تھا، بھٹو کے برسر اقتدار آنے کے بعد گجرات میں نظر بند کر دیا گیا۔ ایک ٹیم نے جو ڈی ایس پی رائے شاہ محمد اور انسپکٹر ملک محمد وارث پر مشتمل تھی، میری نگرانی میں 23 دن تک اس سے پوچھ گچھ کی تھی۔ وہ پولیس انسپکٹر رضا کی بیوی تھی اور گجرات سے تعلق رکھتی تھی۔ یحییٰ خان اور جنرل رانی کے مابین تعلقات اس وقت قائم ہوئے جب یحییٰ خان نے سیالکوٹ کے جنرل آفیسر کمانڈنگ کی حیثیت سے سی ایم ایچ کا دورہ کیا جہاں وہ زیرِ علاج تھی۔ ان کی دوستی میں جلد ہی بے تکلفی اور اعتماد بڑھ گیا۔ یحییٰ خان ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران اس وقت بھی ہیلی کاپٹر پر اس کے گھر جاتا رہا جب وہ گجرات کے نزدیک چھمب، جوڑیاں سیکٹر کا انچارج تھا۔
رانی نے جرنیلوں،سیاستدانوں اور سینئر افسروں کے ساتھ میل ملاپ کے نتیجہ میں بے پناہ دولت اکٹھی کر لی تھی۔ اس نے پوچھ گچھ کرنے والوں کو بتایا کہ ایک بار کراچی میں قیام کے دوران شاہِ ایران کو روانہ ہونے میں خاصی تاخیر ہو گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یحییٰ خان گورنر ہاؤس میں اپنی خواب گاہ سے باہر نہیں آ رہا تھا۔ پروٹوکول کے حوالے سے بڑا سنگین مسئلہ پیدا ہو گیا لیکن کوئی بھی صدر کی خواب گاہ میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کر رہا تھا۔ آخر کار ملٹری سیکرٹری جنرل اسحاق نے رانی سے درخواست کی کہ وہ اندر جائے اور صدر کو باہر لائے۔ وہ کمرے میں داخل ہوئی تو ملک کی ایک مشہور گلوکارہ کو صدر کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے پایا۔ اس نے کپڑے پہننے میں صدر کی مدد کی اور بدقت تمام اسے باہر لائی۔رانی نے یہ انکشاف بھی کیا کہ جنرل یحییٰ خان کے شیخ مجیب کے ساتھ اس وقت سے تعلقات تھے جب اس نے زمام اقتدار بھی نہیں سنبھالی تھی۔ ایک رات کو وہ یحییٰ خان کے پہلو میں تھی جب شیخ مجیب اچانک کمرے میں آ گئے۔ وہ گھبرا کر اور کسی قدر خوفزدہ ہو کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ مجیب جو گول میز کانفرنس کے سلسلے میں اسلام آباد آئے ہوئے تھے ایک گھنٹہ تک جنرل کے ساتھ رہے۔ ان کے چلے جانے کے بعد رانی نے یحییٰ خان سے کہا: ”آغا جی! آپ کو اس آدمی سے نہیں ملنا چاہئے تھا۔ اس کے ساتھ ملاقات خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ صدر کو پتہ چل گیا تو وہ ناراض ہوں گے۔“”تم فکر نہ کرو، موٹی“ یحییٰ خان نے جواب دیا۔”ایوب خان ختم ہو چکا ہے۔ اب تم حکومت کرو گی۔ لیکن کسی سے ذکر نہ کرنا۔ یہ ایک خفیہ معاملہ ہے“۔
(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور روزنامہ ”دُنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)