آدابِ دربارِ نبوی ؐ اور مدینہ طیبہ
حضرت امام مالکؒ بن انس کے نام سے کون ذی شعور مسلمان غافل ہوگا۔ امام مالکؒ جو کہ مؤطّا امام مالکؒ کتاب کے مؤلف ہیں جن کے بارے میں حضرت امام شافعیؒ بھی فرمایا کرتے تھے کہ”آسمان کے نیچے کتاب اللہ کے بعد مؤطاسے زیادہ صحیح کتاب موجود نہیں“۔ امام مالکؒ جنھوں نے اپنی ساری زندگی مدینے میں گزار دی اور تقریباً چالیس سال تک مدینہ میں درس دیتے رہے۔ امام مالکؒ اگر دربار نبویﷺ کے سامنے درس دیتے تو صفحہ پلٹنے کی بھی آواز پیدا ہونے کو بے ادبی سمجھتے تھے اور آپؒ کے دادا بھی صحابی رسولﷺ حضرت ابو عامر اصبحی ؓ جلیل القدر صحابہ اکرامؓ میں سے تھے۔امام مالکؒ مدینہ طیّبہ کا اتنا ادب واحترام کرتے کہ جب کبھی غسل کی حاجت پیش آتی تو اُلٹے پاؤں مدینے سے باہر جاتے اور جب ضرورت سے فارغ ہوتے تو دوڑتے ہوئے مدینہ میں داخل ہوتے کہ کہیں اجل کا فرشتہ مدینے سے باہر ہی موت کا پروانہ نہ لے آئے۔علما ء اکرام اور سلف صالحین میں یہ بحث مدینہ افضل ہے یا مکہ ہمیشہ سے رہی ہے۔مکہ کو اعلیٰ وارفع کہنے والے اس کی فضیلت اور اس میں موجود نشانیوں کی دلیل دیتے ہیں اور اسی طرح مدینے کی افضلیت ومقام کے قائل علماکرام اس کا مقام بلندوبالا ٹھہراتے ہیں۔ شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ نے اس کا قرآن کی آیت سے استدلال کیا اور اس عملی بحث کو بہت ہی خوبصورت پیر ائے میں بیان کیا۔آپؒ فرماتے ہیں کہ جب حضوررحمتہ العلمین ﷺ مکہ میں تھے تو مکہ ا فضل تھا اور جب مدینہ میں آگئے تو مدینہ زیادہ افضل و اعلیٰ مقام بن گیا۔ ایک دن حضرت امام مالک ؒ درس دے رہے تھے کہ آپؒ کا چہرہ متغیر ہوگیا،ویسے آپؒ درس سے پہلے ہمیشہ غسل کرتے، خوشبو لگاتے، نئے کپڑے پہنتے اور بڑے ہی خشوع و خضوع کے ساتھ اہتمام کرتے تھے۔
اُس دن درس کے دوران آپ ؒکا چہرہ جب بے ثبات ہو جا تا اور پورے جسم کی کیفیت کچھ دیر کے لیے تبدیل ہوجاتی۔ اس کے باوجود آپؒ نے حدیث رسولﷺ کا درس روضہئ رسولﷺ کے سامنے مکمل کیااور اس دوران سولہ مرتبہ ایسا ہوا کہ جیسے آپؒ کی جان کنی کا وقت آن پہنچاہو۔ جب درس ختم ہوا تو حضرت عبداللہ بن مبارکؒ نے آپؒ سے پوچھا کہ حضرت! آج کیا واقعہ ہوا کہ سولہ مرتبہ آپؒ کی طبیعت ناساز معلوم ہوئی۔ حضرت امام مالکؒ نے جواب میں فرمایاکہ درس دیتے ہوئے ایک بچھو مجھے ڈنگ مار رہا تھا اور میں ادب ِدربار نبویﷺ کی وجہ سے آہ بھی نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی درس نامکمل چھوڑ سکتا تھا۔دربار نبوی ﷺ اور مدینہ طیبہ کا ادب ایک مومن اور مسلمان کے لیے ایمان و آخرت کا کل اثاثہ ہوتا ہے۔ اللہ کے محبوب رحمتہ العاملینﷺ مدینے کے بارے میں دُعا مانگا کرتے تھے کہ ”اے اللہ! مدینہ میں اس سے دوگنی برکت عطا فرما جس قدر برکت تو نے مکہ کو عطا فرمائی“۔ پھر فرمایا: ”یہ مدینہ طیبہ ہے اور یہ میل کچیل کو اس طرح باہر نکال پھینکتا ہے جیسے آگ چاندی کے میل کو دُور کردیتی ہے“۔ مدینہ طیبہ کے ادب واحترام کایہ معاملہ تھا کہ حضرت ابوہریرہؓ کہا کرتے تھے کہ اگر میں مدینہ پاک میں کسی ہرن کو چرتے دیکھتا ہوں تو اُسے ڈراتا اور بدکا تا نہیں ہوں۔ایک دفعہ خطبہ کے دوران حضرت علیؓ نے ایک صحیفہ کھولا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ”حرم مدینہ کی حد جبل عیر سے فلاں مقام تک ہے لہٰذا جو شخص اس میں کوئی نئی بات (بدعت یا دست درازی) کرے گا اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب انسانوں کی لعنت ہو، اللہ تعالیٰ نہ اس کی فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفلی عبادت“۔
اگر آپ بغور تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہمیشہ سے صحابہ اکرامؓ اور سلف صالحین دربار نبویﷺ اور مدینہ پاک کے ادب کو اپنے ایمان کا حصّہ اور نجات کی کنجی سمجھتے تھے اور مدینہ پاک کی مٹی کو بھی شفا مانتے تھے۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں آخری خلیفہ سلطان عبدالحمیدؒ نے جرمنی کے ساتھ ریلوے لائن کا معاہدہ کیا تو اُس وقت معاہدے میں درج کیا گیا کہ جب مزدور مدینہ پاک سے بیس کلومیٹر دور رہ جائیں گے تواپنے ہتھوڑوں پر کپڑا باندھ لیں گے تاکہ محبوبِ خدا رحمتہ العالمینؐ کے مبارک شہر میں شور کی آواز نہ پہنچ سکے۔ مدینہ طیبہ تو زمین پر ایسا مقام ہے کہ جہاں حضرت بایزید بسطامیؒ اور حضرت جنید بغدادیؒ جیسی ہستیاں بھی سانس آہستہ لیتی تھیں کہ کہیں سانسوں کی آواز سے بھی بے ادبی نہ ہو جائے اور سارے اعمال ہمارے منہ پر مار دئیے جائیں۔ حیرانگی اور کمینگی کی انتہا ہمیں پچھلے دنوں نظر آئی جب کچھ بدبخت لوگوں نے مدینے کی حدود میں آوازوں کو بلند کیا اور اس سے بھی زیادہ ذلالت اور کم ظرفی اُن لوگوں کے لیے جو اپنے سیاسی پارٹی اور اپنے لیڈر کی حمایت کی وجہ سے اس میں ”اگر“، ”لیکن“، ”مگر“ وغیرہ کا لفظ استعمال کرتے رہے۔ وہ مقام اور شہر تو ایسا ہے کہ جہاں پاؤں نہیں،بلکہ دل چلتے ہیں، جہاں زبان نہیں،بلکہ آنسوؤں کی لڑیاں اپنی التجائیں پیش کرتی ہیں، وہ منزل تو ایسی منزل ہے کہ اگر کوئی اپنی جان کو گروی رکھ کر بھی وہاں پہنچ جائے تو اُس سے بڑھ کر کوئی سعادت کی بات نہ ہو۔ کوئی شخص کسی بھی مذہب، فرقے یا سیاسی پارٹی کا ہو جو ہمارے دل و جان، ایمان اور جہاں مومنوں کے لیے عشق کی معراج ہوتی ہے اور جو گناہ گاروں کی پناہ گا ہ ہیں وہاں جو بے ادبی کرے گاتو یقیناقرآن پاک کے مطابق اُس کے اعمال اُس کے منہ پر مار دیئے جائیں گے، بلکہ دنیاکے ساتھ ساتھ قبر اور آخرت میں بھی عذاب الٰہی اُس کا منتظر ہوگا، انشا اللہ!