مہنگائی سے ریلیف کیسے! مہنگائی کا خاتمہ،چند تجاویز!
پاکستانی معیشت کو اس وقت آئی ایم ایف،ذخیرہ اندوزوں،اور منافع خوروں نے گھیر رکھا ہے۔امیر کا سرمایہ تو بڑھتا رہتا ہے لیکن غریب آدمی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری جس رفتار سے جاری ہے، اس کی وجہ سے عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ مزدور اورملازمت پیشہ افراد کی تنخواہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے آدھی ہوگئی۔ گھریلو اخراجات بڑھ گئے،جبکہ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیاجاتا۔مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کی نئی حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے اگلے بجٹ کے لئے رجوع کرلیا ہے۔ جس کے تحت مشکل فیصلے کرنا پڑگئے ہیں۔ موجودہ حکومت عمران خان کے لانگ مارچ سے بھی فارغ ہوگئی ہے لیکن بظاہر لگتاہے کہ پاکستانی عوام کے لئے معاشی حوالے سے کوئی اچھے دن نظر نہیں آرہے۔پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے عوام کی نئی حکومت سے وابستہ امیدیں بھی ٹوٹ رہی ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کا دورحکومت تھا۔لندن میں اے آر ڈی کے اجلاس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو شہیدنے کچھ ہم خیال اتحادی دوستوں کواپنے فلیٹ پر مدعو کیاکہ حکومت ملنے کی صورت میں ملک کو درپیش معاملات خاص طور پر مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے مشاورت کی جائے۔ میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو متوجہ کیا کہ اگر آئندہ حکومت پیپلز پارٹی کو ملتی ہے تو مہنگائی پرقابو پانے اورچھوٹے طبقے کومہنگائی کے اثرات سے بچانے کے لئے قوم کو سادگی کی عادت ڈالی جائے۔اوراس کی ابتدا خودحکمران طبقے اور اشرافیہ سے کرنی چاہیئے۔تاکہ غریب اور متوسط طبقے میں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔ میں نے محترمہ بینظیر بھٹو کو تجویز دی کہ پاکستانی خواتین اور لڑکیوں میں آپ آئیڈیل شخصیت ہیں۔ خود سادہ لباس پہنتی ہیں تو حکومت ملنے پر توٹیکسٹائل ملوں کو آرڈر کیا جائے کہ سردیوں اور گرمیوں میں مڈل اور لوئر کلاس کے لیے ایک ہی معیار کا سادہ کپڑا تیار کریں جس پر حکومت سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکس ختم کرے اوریہی کپڑا آپ بھی استعمال کریں تو غریب طبقے کو پہنتے ہوئے غربت کا احساس بھی نہ ہو اور مالی بوجھ بھی ان کا کم ہو جائے گا۔اسی طرح آپ کے شوہر آصف علی زرداری بھی شلوار قمیض پہنتے ہیں تو مردوں کیلئے بھی سردی اور گرمی کے کپڑے حکومت کے تمام ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دے دیئے جائیں۔تو ہر آدمی کو اپنی کم مائیگی اور غربت کا احساس نہ ہو گاکہ حکمران جوڑا جو لباس پہنتا ہے۔ وہی ان کے زیر استعمال ہے۔میری یہ باتیں سن کر محترمہ بینظیر بھٹو نے شیری رحمان صاحبہ سے میری تجویز کو پارٹی پالیسی بنانے کے لئے عملی اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔پھرمحترمہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان پہنچیں مگر سادگی پر کوئی بات آگے نہ بڑھ سکی۔
لوگوں کو یاد ہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور سے پہلے پینٹ کوٹ پہنے بغیر بڑے ہوٹلوں میں داخلہ ممنوع تھا لیکن پیپلز پارٹی جب برسراقتدارآئی تو وزیر اعظم نے سیاسی جلسوں اور عوامی تقریبات میں ایک ہی رنگ کی شلوار قمیض پہننا شروع کر دی۔ اس سے فرق یہ پڑا کہ عوام کی بڑی تعداد نے بڑے ہوٹلوں کی تقریبات میں بھٹو کو آئیڈیل مان کر ان کے سادہ لباس شلوار قمیض کو اختیار کیا۔
ایک بار روسی ریاستوں میں سے آذربائیجان کو آلو اور پیاز کی قلت کا سامنا ہواتو ایرانی تاجر پاکستان آئے۔ ان کو تجارتی معاہدہ کے تحت آلو مہیا کرنے تھے، قصور،اوکاڑہ اور سیالکوٹ میں آلو کی اچھی فصل اگائی جاتی ہے۔ان اضلاع سے میں نے آلو کے ٹرک کوئٹہ اور زاہدان کے راستے آذربائیجان بھجوانا شروع کر دیے۔آپ حیران ہوں گے کہ اس وقت آلو کی قیمت کھیت کے اندر ڈیڑھ سے اڑھائی روپے فی کلو تک تھی۔لیکن مڈ ل مین کے کردار کی وجہ سے یہ قیمت صارفین تک پہنچتے 12 روپے فی کلو تک پہنچ جاتی تھی۔اس کا مطلب یہ تھا کہ 10 روپے آڑھتی اور سرمایہ دار کی جیب میں جا رہے تھے اور فصل پر محنت کرنے والے کاشتکار کو تو اس کی لاگت تک نہ ملتی تھی۔ اسی طرح گندم اور چاول کی فصل میں بھی محنت کاشتکار کرتا ہے، کمائی آڑھتی، سرمایہ داراور ذخیرہ اندوز لے جاتا ہے۔ چینی پر بات کریں تو یہاں بھی گنا کا شتکار بڑی محنت سے تیار کرتاہے،لیکن شوگرملوں کے باہر میلوں لمبی لائنوں میں کھڑی ٹرالیاں لئے کسان انتظار کرتا ہے کہ وہ اپناگناوزن کروانے کے بعد مل مالک کے حوالے کرے۔مگر یہاں کاشتکار کی مجبوری سے مڈل مین فائدہ اٹھاتا ہے، اور اسے سرکاری ریٹ سے کم قیمت پر خریدلیتا ہے۔ اسی طرح کی واردات سبزی اور پھلوں کی اجناس کے ساتھ بھی کی جاتی ہے۔پاکستان میں پیدا ہونے والی ہر جنس جو کھیت سے نکل کر ہم تک پہنچتی ہے اس کی اصل قیمت کسان کو ملتی ہے اور نہ ہی صارفین کو اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ اس کا منافع مڈل مین کما لیتا ہے۔ اس طر ح کا شتکار ہو یا صارف، غریب طبقے کو دونوں طرف سے لوٹا جاتاہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ آئی ایم ایف سے قرض لینا اورقرضوں کی سخت شرائط کا بوجھ عوام پر ڈالنا ناانصافی ہوگی۔ میاں نواز شریف، آصف علی زرداری،وزیر اعظم شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان اور حکومتی اتحاد کے دوسرے رہنماوں سے عرض کرتا ہوں کہ قانونی طور پر عوام سے لوٹے گئے سرمائے کی طرف توجہ کریں۔اسے عوام کو ریلیف دینے کے لئے استعمال کیا جائے۔ اگر آپ بجلی کانیا میٹر لگوانا چاہتے ہیں نیا کنکشن لگوانا چاہتے ہیں تو میٹر کی قیمت سے لے کر ایک ایک کیل کانٹے کی قیمت ڈیمانڈ نوٹس میں آپ کو ادا کرنا پڑتی ہے۔مگر یہ میٹر بجلی مہیا کرنے والے ادارے ہی کی ملکیت رہتا ہے۔اسی طرح سیکیورٹی فیس کے نام پر کنزیومر سے لی جانے والی رقم اس لئے ہوتی ہے کہ اگر صارف بل نہیں دے گا تو واجب الادا رقم اس سکیورٹی سے ادا کی جائے گی۔مگر ایسا نہیں ہوتا۔کئی سالوں سے عوام کی طرف سے جمع کروائی گئی سیکورٹی بینکوں میں پڑی ہے، جو بینک سرمایہ کاری کرکے خوب کمارہے ہیں۔ان بینکوں میں محکمے کا اکاؤنٹ کھلوانے والے افسر یا وزارت کے سیکرٹری منافع کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اسی طرح گیس،پانی، ٹیلی فون کی بھی سیکورٹی جمع ہوتی ہے۔ مگر آج تک صارفین کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی پر حکمرانوں کی توجہ ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتیں اس پر کوئی بات کرتی ہیں۔ہم آڈیٹر جنرل سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ صارفین کو سہولیات دینے والے اداروں کے اکاونٹس کی تحقیقات کی جائیں کہ بجلی پانی گیس کے محکموں کے پاس کتنی رقوم سکیورٹی کے نام پر ان کے پاس موجود ہیں، وہ کہاں استعمال ہو رہی ہیں۔اس سے کمایا جانے والا منافع کہاں لگایا جاتا ہے؟ حقائق عوام کے سامنے رکھے جائیں۔ اسی طرح پاکستان کے اندر ملکی اور غیر ملکی بینکوں کا آڈٹ ہونا چاہیے کہ ان کے پاس ”ڈیڈ اکاونٹس“کی مد میں کتنا سرمایہ پڑا ہوا ہے۔ یہ پیسہ عوام کا ہے اور عوام پر استعمال ہونا چاہیے۔
آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرض لینے کی بجائے،ان اداروں کی چھان بین کر کے اسے غریب اور متوسط طبقے کی ضروریات پر استعمال ہونا چاہیئے۔آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑی اقتصادیات کے ڈھانچہ نے سرمایہ دار کو تحفظ دیا، کاشتکاراور عام صارفین کا استحصال کیا۔اسی طرح نواز شریف حکومت کی’قرض اتارو ملک سنوارو‘ جونیجو دور میں بجلی کے بلوں پر وصول کیا گیا ’اقرا سرچارج‘، پرویز مشرف کے دور میں ڈویلپمنٹ فنڈز، جسٹس ثاقب نثارکی طرف سے’ڈیم فنڈ‘ کی رقم کی تحقیقات کی جائیں کہ وہ کہاں ہیں؟ کتنی ہوچکی ہیں؟قوم کو ان کے بارے میں بتایا جانا چاہیے۔یہ چھوٹے اور غریب طبقے کا پیسہ ہے۔اتحادی حکومت کو طویل المدت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کہ کس انداز سے یہ ملک آئی ایم ایف کے شکنجے سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔ورنہ ہر رو ز کا قرض آئندہ نسلوں اور ملکی سلامتی کے لئے بھی وبال جان بن جائے گا۔