کامیاب نقاد سے مکالمہ

٭کند خیالوی صاحب آپ کی صحت کا راز کیا ہے؟
٭بے فکری، ہاضمے کی تیزی اور موافق آب و ہوا۔
٭اچھا یہ فرمایئے آپ کے نزدیک نقاد کا منصب کیا ہے؟
٭میاں یہ سوال تو دوسرے نقادوں سے پوچھئے۔ مجھے نہ تو عہدے کی خواہش ہے اور نہ کسی منصب وغیرہ کا قائل ہوں۔
٭فرمایئے آپ کو نقاد بننے کا خیال کیسے آیا؟
٭دراصل میری طبیعت شروع ہی سے آمرانہ قسم کی رہی ہے۔ اللہ بخشے میرے والد کہا کرتے تھے خدا نے ہمارے گھر میں لڑکا نہیں کوئی مارشلائی قسم کی مخلوق پیدا کر دی ہے میرے والد شعر و شاعری کے بہت شوقین تھے، ہمارے گھر میں اکثر مشاعرے ہوتے۔ میں پندرہ سال کا تھا تو حسب معمول گھر میں مشاعرہ ہو رہا تھا۔ میں دوستوں کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیل کے لوٹا تھا اُس وقت شاعر صاحب لہک لہک کر یہ شعر پڑھ رہے تھے۔
علم کو اور کتابوں کو بے کار سمجھتا ہے
اب لڑکے کے ہاتھوں میں بس گلی ڈنڈا ہے
شعر سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی میں نے سوچا اس بدبخت کی یہ مجال کہ میرے ہی گھر میں بیٹھ کر میری برائی کرے۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ قریب ہی پڑی ہوئی کرسی اٹھا کر شاعر کے سر پر دے ماری، شاعر کے منہ سے ”ارے یہ کون سا انداز ہے داد دینے کا“ کے الفاظ نکلے پھر وہ بے ہوش ہو گیا قصہ مختصر میری اس غیر شاعرانہ حرکت کے خلاف تمام شاعر واک آؤٹ کر گئے، والد صاحب کے لئے یہ بہت ندامت کی بات تھی، انہوں نے میری خوب پٹائی کی۔ جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو پوچھا معاملہ کیا تھا میں نے گلی ڈنڈے والی تمام کہانی سنا ڈالی جسے سن کر اُنہوں نے مجھے سمجھایا کہ شاعروں پر جسمانی تشدد سے قابو نہیں پایا جاتا بلکہ ایک اور طاقت ہے جسے تنقید کہتے ہیں، اس سے شاعروں میں جان ڈالی بھی جا سکتی ہے اور نکالی بھی، یہ سن کر میں نے نقاد بننے کا فیصلہ کیا۔
٭ بڑی دلچسپ کہانی ہے آپ کے نقاد بننے کی، تو اس کا مطلب یہ ہوا آپ صرف شاعروں پر تنقید کرتے ہیں؟
٭اس واقعہ کے علاوہ بھی اس کی کئی وجوہات ہیں شاعری پر تنقید کرتے ہوئے آپ بہت آزادی محسوس کرتے ہیں۔
پھر یہ شاعر کے بارے میں آپ کو ایک ہی بات کہنے کی سہولت بھی ہوتی ہے خاص طور پر آج کل ہر شاعر کے اندر سے ایک ہی آواز نکل رہی ہے ایسے جیسے کسی کا گلا دباتے وقت نکلتی ہے۔ شعری مجموعے بھی دھڑا دھڑ چھپ رہے ہیں، اس لئے ایک ہی قسم کی شاعری سے مجھے فائدہ ہوتا ہے بعض اوقات تو شاعر کا نام تبدیل کر کے بھی کام چل جاتا ہے۔ افسانے یا ناول پر میں بات اس لئے نہیں کرتا کہ اس کے لئے پورا خانہ یا پورا ناول پڑھنا پڑتا ہے یہ کام میرے نزدیک سراسر بیکار کا سودا ہے۔
٭کچھ لوگ کہتے ہیں سینکڑوں ادبی مضامین لکھنے کے باوجود آپ تنقید میں کوئی نام نہیں بنا سکے!
٭ایسے ناہنجار لوگ میری ادبی حیثیت سے جلتے ہیں ادب میں میرے مقام کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ شہر میں کوئی بھی تقریب رونمائی میرے بغیر نہیں ہوتی۔ ہر صاحبِ کتاب کی خواہش ہوتی ہے کہ میں اس پر مضمون لکھوں۔ پھر آپ یہ بھی دیکھیں کہ اکثر شعری مجموعوں کے فلیپ بھی میں نے لکھے ہیں۔
٭عام طور پر کہا جاتا ہے کہ تقریب رونمائی اور فلیپ نگاری کے لئے وہی شخص مقبول اور کامیاب رہتا ہے جو سرکاری افسروں کی طرح آنکھیں بند کر کے سب اچھا کی رپورٹ دیتا ہو، آپ کا کیا خیال ہے۔
٭کم از کم یہ بات مجھ پر صادق نہیں آتی، رائے دیتے ہوئے نہ صرف آنکھیں کھلی رکھتا ہوں بلکہ موٹے شیشوں کی عینک بھی لگا لیتا ہوں خاص طور پر جب کوئی شاعر میرے پاس آتا ہے تو میں بغور دیکھتا ہوں کہ اس کا میرے ساتھ رویہ کیسا ہے رویہ اچھا نہ ہو تو وہ کسی صورت مجھ سے سب اچھا کی رپورٹ نہیں لے سکتا۔
٭اچھے رویئے سے آپ کی کیا مرا ہے؟
٭دیکھو بھئی جب تک وہ میری ناقدانہ سنیارٹی کا احترام نہ کرے، مجھے عہد موجود کا سب سے بڑا نقاد نہ مانے، میری تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے نہ ملائے، اس کا رویہ میرے لئے متاثر کن کیسے ہو سکتا ہے۔
٭کہتے ہیں تنقید زوال کا شکار ہے؟
٭زوال کیا چیز ہوتی ہے آج کل سیاست زوال کا شکار ہے لوگ پریس کانفرنسیں کر کے سیاست ایسے چھوڑ رہے ہیں، جیسے وہ کوئی بلا ہو۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے بعد سیاست ختم ہو جائے گی؟ اس لئے تنقید کو بھی زوال نہیں آ سکتا کم از کم میری تنقید تو عروج کی طرف گامزن ہے پہلے ہفتے میں تین فلیپ لکھتا تھا اب پانچ لکھتا ہوں اسی طرح تقریب رونمائی کے لئے مضامین کی طلب بھی دگنی ہو گئی ہے۔
٭اچھا یہ بتائیں آپ اپنے بچوں کو بھی نقاد بنائیں گے؟
٭بالکل نہیں میرا ارادہ انہیں شاعر بنانے کا ہے۔
٭شاعر؟ لیکن آپ تو شاعروں سے غلامانہ سلوک کرتے رہے ہیں۔
٭یہ ٹھیک ہے لیکن ہماری شہنشاہیت صرف دکھاوے کی ہے جبکہ شاعر صحیح معنوں میں چاندی رول رہے ہیں۔ میرے ہمسائے میں ایک شاعر رہتا ہے، بدبخت نے آج تک اپنی کسی کتاب کا فلیپ مجھ سے نہیں لکھوایا ہر دوسرے دن مشاعرہ پڑھنے گیا ہوتا ہے۔ میں نے آج تک ہوائی جہاز کو قریب سے نہیں دیکھا جبکہ وہ ہوائی جہاز پر بیٹھنے کا ذکر یوں کرتا ہے جیسے شیدے ریڑھی والے کے پھٹے پر بیٹھ رہا ہو۔ بس یہ بھی ہے کہ اس کام کے لئے کچھ زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑتی، بس دو غزلیں ہماری زندگی آسائش کے ساتھ گزارنے کے لئے کافی ہوتی ہیں۔ اب تو شاعروں میں شاعری کم اور ڈرامہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے بچوں کو شاعر بناؤں گا، اچھا اب میں چلتا ہوں بہت دیر ہو گئی۔ جنگل مراد آبادی کے شعری مجموعے کی تقریب رونمائی ہے اور مجھے وہاں پہنچنا ہے۔