تقسیم خان

کوئی اتنا بڑا نام نہیں لیکن نہ جانے کیوں ایسا ہوتا ہے کہ جو بھی سوچتا ہوں یا اندازہ لگاتا ہوں وہ اکثر سچ ثابت ہوتا ہے۔بہت پہلے جب بہت سوں نے تبدیلی کا اصل روپ نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اسے ”تباہ دیلی“ بنتے دیکھا تھا تب سے اپنا یہی خیال تھا کہ تبدیلی نامی بس کا ڈرائیور بھی ایک فاشسٹ قسم کا انسان ہے۔ مزید یہ کہ یہ ڈرائیور پاکستانی معاشرے حتی کہ خاندانوں تک کو تقسیم کرے گا اور ایسا تقسیم کرے گا کہ لوگ صحیح اور غلط کو اپنے دین اور معاشرت کے متفقہ اصولوں کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے ڈرائیور کی پسند اور نا پسند کی روشنی میں دیکھیں گے۔مزید بر آں یہ کہ تبدیلی بڑی ہو کر ایسے ایسے گل کھلائے گی کہ لوگ ایم کیو ایم کو بھول جائیں گے۔ میں یہاں ایم کیو ایم کے بارے کوئی رائے نہیں دے دہا بلکہ اس بیانیے کی بات کر رہا ہوں جو عوام میں قتل، اغوا، بھتا خوری، بوری بند لاشوں اور پاکستان دشمنی کے حوالے سے بنایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ میری ایک تیسری رائے بھی تھی جس کا شاہد بھی میرا حلقہ احباب ہی ہے کہ پاکستان میں فوج کو ایک ادارے کے طور پر اگر کسی نے نقصان پہنچایا تو وہ بھی تبدیلی بس کا ڈرائیور ہی ہو گا۔اب اس پر خوشی کا اظہار کروں یا افسوس کا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تینوں رائے درست ثابت ہوئیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر میرے جیسا ایک گمنام انسان اس طرح کے اندازے لگا سکتا ہے تو وہ ٹھیکدار کیونکر مار کھا گئے جو اس ڈرائیور کو اس بس پر بٹھا رہے تھے جس میں کم و بیش تئیس کروڑ لوگ سوار تھے؟ اس کا جواب تو بڑا واضح ہے کہ پاکستان میں ٹھیکدار ملک سے زیادہ اپنے مفادات سے پیار کرتے ہیں بلکہ وہ اصلی پاکستان خود کی ذات کو ہی سمجھتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ اس وقت کسی نہ کسی طریقے سے نواز شریف کو کھڈے لائن لگانا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار تھے لہذا وہ چلے گئے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آئین بقول ضیاء الحق کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے لہٰذا ٹھیکدار بوقت ضرورت کاغذ کے اس ٹکڑے کو مروڑ کر ناک تک صاف کر لیتے ہیں۔یعنی انھیں قانون کا کوئی خطرہ نہیں بلکہ انھیں یقین ہے کہ چاہے وہ جو بھی کر لیں انھیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ہے۔ لہذا جب کسی کو قانون کا ڈر ہی نہیں ہو گا تو وہ کیونکر سوچے گا کہ بس کی ڈرائیونگ سیٹ پر کسے بٹھانا ہے؟لہذا اگلوں نے بٹھا دیا اور ڈرائیور نے بس اور عوام کا وہی حال کیا جو اس بس ڈرائیور نے کیا تھا جس سے پوچھا گیا کہ حضرت آپ نے پوری بارات کچل دی؟اس ڈرائیور نے جواب دیا کہ میں بس چلا رہا تھا کہ اچانک سامنے سے ایک بارات آ گئی، دوسری طرف دیکھا توایک خالی میدان تھا، اب ایک طرف پوری بارات اور دوسری طرف خالی گراؤنڈ ، اب آپ ہی بتائیں کہ میں کیا کرتا؟تفتیشی نے جواب دیا کہ تم بس خالی میدان کی طرف موڑ لیتے۔ ڈرائیور نے جواب دیا کہ اُس وقت میں نے بھی وہی سوچا تھا جو اِس وقت آپ نے سوچا ہے لیکن ہوا یہ کہ اس وقت باراتیوں نے بھی ایسا ہی سوچا تھا۔
بہرحال بات ہو رہی تھی میرے خدشات کے بارے میں اور وقت گزرا تو ایسا ہی ہوا۔وقت نے ثابت کیا کہ ڈرائیور ایک فاشسٹ قسم کا انسان نکلا۔ اس کی کل کائنات صرف یہی تھا۔ صحیح اور غلط کے سوتے کسی دین یا قانون نہیں بلکہ اس کی پسند ناپسند اور ہاں یاناں سے پھوٹتے تھے۔ڈرائیور نے دین کو اس طرح تقسیم کیا کہ مسجد نبوی میں شور شرابہ، مجھے ووٹ نہ دینا شرک ہے، قبر میں پوچھا جائے گا کہ ووٹ کسے دیا تھا جیسی لایعنی باتوں کا نہ صرف دفاع کیا جانے لگا بلکہ یہی باتیں شعور کی نشانیاں کہلانے لگیں۔خاندان کو اس طرح تقسیم کیا کہ ماں بیٹی جبکہ باپ بیٹے کی نظروں میں جاہل بن گیا بلکہ بعض لوگ تو برملا یہ کہنے لگے کہ اگر ڈرائیور کہے تو ہم اپنے بچوں کے گلے پر اپنے ہاتھوں چھریاں چلا دیں۔کہاں حضرت ابراہیم ؑ جیسے عظیم اور برگزیدہ باپ اور حضرت اسماعیل ؑ جیسی پاکیزہ اولادیں اور کہاں یہ؟ کوئی مغربی ملک ہوتا تو یہ والدین اور ڈرائیور بچوں کو سیاست کا ایندھن بنانے کی پاداش میں جیل میں ہوتے لیکن افسوس کہ پاکستان میں اس غلط کام کو گلوریفائی کیا جاتا رہا۔معاشرے کو اس طرح تقسیم کیا کہ لاشوں تک کو پارسل کہا جانے لگا، مریضوں کے کمروں کے دروازے تک توڑ دیے گئے، لوگوں کے گھروں کے سامنے جلسے اور نعرے لگائے جانے لگے، جنازوں تک میں نعرے لگے،مخالفین کو گولیاں ماری گئیں اور اس کی مذمت کرنے کی بجائے یہ کہا گیا کہ وہ اسی کے حق دار تھے اور انھیں اور مارنا چاہیے،معزز خواتین کو ”ٹیکسیاں“ کہا جانے لگا اور پہلی بار ”حجاب میں طوائف“ جیسے گھٹیا ٹرینڈ چلائے گئے۔ فوج کی ایک ادارے کے طور پر تاریخ میں پہلی بار سبکی ہوئی اور فوج کے بقول جو کام سات دہائیوں میں ”دشمن“نہ کر سکا وہ کام ایک ”دوست“ نے کر دکھایا۔لوگ پھانسی چڑھے اور جلاوطن بھی ہوئے لیکن ان ”غداروں“ نے یہ حشر نہیں کیا تھا جو اپنے ہی بنائے ایک ”محب وطن“ دوست نے کر دکھایالیکن افسوس کہ اتنی تقسیم کے بعد بھی تقسیم خان نہ صرف آزاد ہے بلکہ مزید تقسیم کر رہا ہے اور معاشرہ اس کی تقسیم کو ضرب جانے بیٹھا ہے۔آہ تقسیم خان آہ!