گاڑی ایک ضرورت ہے یا شوق؟؟

گاڑی ایک ضرورت ہے یا شوق؟؟
گاڑی ایک ضرورت ہے یا شوق؟؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 70لاکھ نجی استعمال کی رجسٹرڈ گاڑیاں ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ بھی ہوں گی. غیر رجسٹرڈ میں وہ بھی ہیں جو خرید کے بعد ابھی رجسٹرڈ نہیں ہوئیں جبکہ کچھ دور دراز علاقوں میں بغیر کسٹم ادا کیے گاڑیوں کی خاصی تعداد  ہے پاکستان کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ایک چوتھائی سے بھی کم خاندانوں کے پاس ذاتی گاڑی ہے  لیکن موٹر بائیک  اگر ہر گھر میں نہیں تو کم از کم 80 فیصد سے زائد لوگوں کے پاس ضرور ہوں گی، اس طرح پاکستان کی بھاری اکثریت کے پاس ذاتی ٹرانسپورٹ ہے.  لیکن سڑکوں پر جتنی گاڑیوں کا رش ہوتا ہے اس کے قریب قریب ہی مانگنے والے گداگروں کی تعداد بھی ہوتی ہے. بہرحال میرے کالم کا اصل موضوع یہ ہے کہ گاڑی  کیوں ضروری ہے؟ کیا پاکستان میں سب لوگ ضرورت سے گاڑی خریدتے ہیں یا عیش کے لیے؟ مشاہدے میں آیا ہے کہ جب بھی کسی کے پاس کچھ پیسے آتے ہیں تو اس کے سامنے دو ہدف ہوتے ہیں ایک گھر بنانا دوسرا گاڑی خریدنا، یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب "پیسہ آتا ہے تو پھر گاڑی آتا ہے جب زیادہ پیسہ آتا ہے پھر زیادہ یا بڑا گاڑی آتا ہے  میرے خیال میں اس کی دو وجوہات ہیں ایک ہمارے معاشرے میں احساس کمتری یا احساس برتری ہے دوسرا ملک کے اندر پبلک ٹرانسپورٹ بالخصوص انٹر سٹی پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام اچھا نہ ہونا بھی ایک وجہ ہے.  یورپ، امریکہ، جاپان اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے. لیکن ان کا اپنا ذاتی گھر ہوتا ہے نہ گاڑی، وہ زیادہ تر پیدل چلتے ہیں یا سائیکل ان کی سواری ہوتی ہے. ایک بار پاکستان کے  معروف کالم نگار اور بڑے بیوروکریٹ یاسر پیرزادہ صاحب ناروے کی سیر کے لیے گئے اور ہمارے مہمان ٹھہرے، ہم نے ان کی خواہش پر پارلیمنٹ کے اندر لیبر پارٹی کے ایک لیڈر جو پارٹی کے صوبائی صدر اور پارلیمنٹ کے ممبر تھے کے ساتھ میٹنگ کا اہتمام کیا، اس لیبر راہنما نے ہمیں کال کی کہ آپ پارلیمنٹ کے  وزٹر گیٹ سے اندر جائیں میں کچھ دیر بعد پہنچوں گا. جب ہم پارلیمنٹ کے دروازے کے سامنے اندر جانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے تو دیکھا وہ لیبر راہنما ہلکی بارش ہوتے ہوئے آدھے لباس میں سائیکل پر سوار آن پہنچا، وہ 15 کلومیٹر سے  ہلکی بارش میں سائیکل چلا کر آیا تھا.

اور راستے سے گھر کا سودا سلف خرید کر سائیکل کے ساتھ لٹکا رکھا تھا. یاسر پیرزادہ صاحب نے میٹنگ کے دوران سائیکل پر آنے کے حوالے سے سوال کر دیا تو اس نے بتایا کہ گرمیوں میں میری یہی روٹین ہے.  زیادہ تر سائیکلنگ کر کے ہی آتا جاتا ہوں. یورپ کی سڑکوں پر سب سے زیادہ تو گاڑیاں ہی ہوتی ہیں جبکہ دوسرا نمبر سائیکلون کا   ہوتا ہے  بائیکس بہت ہی کم  ہیں دوسرا پورے یورپ میں پبلک ٹرانسپورٹ کے جال بچھا دئیے گئے ہیں اور وہاں بسوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ میرے ساتھ سفر کیوں نہیں کرتے ہو جبکہ ہم ایک ہی راستے کے راہی ہیں؟ ایک زمانے میں لاہور سمیت پاکستان کے تمام شہروں میں ہر طرف سڑکوں پر سائیکلیں نظر آتی تھیں. اور پاکستان میں سائیکلیں بنانے کے کارخانے چلتے تھے. کچھ سائیکلیں چین سے بھی آتی تھیں. پاکستان میں ایگل اور سہراب سائیکل بہت مشہور تھیں. اب ان کی جگہ ہونڈا نے لے لی ہے.  مجھے گاڑیوں پر لکھنے کا خیال روزنامہ پاکستان کی ایک خبر پڑھ کر آیا کہ شوگر کی بیماری کے پھیلاؤ میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے. ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں شوگر کا پھیلاؤ 31 فیصد کے لگ بھگ ہے. جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں لاکھوں شوگر کے مریض ایسے بھی ہیں جو کسی ریکارڈ میں شامل ہی نہیں ہیں. اس طرح یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ہر دوسرے بندے کو شوگر کا عارضہ لاحق ہے. اس کے علاوہ فشار خون، جوڑوں اور کمر کے درد، دل کی بیماریوں سمیت لاتعداد ایسی بیماریاں ہیں جن پر پیدل چل کر یا سائیکلنگ اور متوازن غذا سے قابو پایا جا سکتا ہے.  جن لوگوں کے پاس گاڑیاں اور بائیکس ہیں وہ جب کہیں جاتے ہیں تو ان کا دل چاہتا ہے کہ اپنی سواری کو اندر تک لے جائیں، یورپ میں تو اندرون شہر بہت ساری سڑکوں پر گاڑی لے جانے کی ممانعت ہوتی ہے. وہاں ہر شہر میں کچھ نوگو ایریاز ہوتے ہیں.

لیکن ہمارے ہاں گاڑی مالکان کی عزت بھی زیادہ ہے(یہ بھی ایک وجہ ہے گاڑی رکھنے کی) اس لیے  ہر بندہ ہر جگہ گاڑی میں پہنچنا چاہتا ہے گاڑیوں کے شوق نے ایک اور نقصان کیا ہے وہ یہ کہ ملک کے بہت سارے دیہاتی علاقوں کے اندر پرانے زمانے سے زیادہ تر آبادیاں اونچی جگہوں پر بنائی گئی تھیں اونچے ٹیلوں پر یا پہاڑیوں کے اوپر یا دامن میں جبکہ اب ہر بندہ سڑک کی طرف بھاگ رہا ہے. جب بھی کوئی نیا گھر بنانے کا سوچتا ہے وہ اسی جگہ بناتا ہے جہاں تک گاڑی کا پہنچنا آسان ہو اس طرح ہم اپنی قیمتی زرعی زمینوں کو پتھر میں تبدیل کر رہے ہیں.  میں یہ بالکل نہیں کہتا کہ کوئی بندہ گاڑی نہ خریدے، میں نے خود گاڑی رکھی ہوئی ہے. لیکن میں زیادہ سے زیادہ پیدل چلتا ہوں گاڑی کا استعمال غیر ضروری نہیں کرتا، اپنی بچیوں کو ہر طرح کے موسم میں کم از کم دو بار ہفتے میں اسکول پیدل لیکر جاتا اور آتا ہوں میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم گاڑیاں اس لیے نہ خریدیں کہ اس سے ہماری شان و عزت میں اضافہ ہوگا یا اس سے ہماری امارت نظر آئے گی بلکہ گاڑی اپنی سہولت کے لیے خریدی جائے اور اس کا استعمال کم سے کم کیا جائے. تاکہ ہم ایک طرف ماحول کو  برے اثرات سے بچائیں، دوسری جانب انرجی بچائیں اور اپنی صحت کا خیال کریں. دوسرا میں چاہتا ہوں کہ حکومت پبلک ٹرانسپورٹ پر توجہ دے اور عوام کو ہر جگہ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کر کے سڑکوں پر غیر ضروری رش پر قابو پائیں اور حادثات میں بھی کمی لائی جا سکے۔اس کے ساتھ ساتھ ٹریفک قوانین کو بہتر بنانے اور ان پر عملدرآمد کروانے کی کوشش بھی کی جانی چاہیے۔

مزید :

رائے -کالم -