ڈاکٹروں کو عزت دو

طبیعت کی نرمی اور سخاوت انسان کو دشمنوں کے دلوں میں بھی محبوب بنا دیتی ہے، کچھ دانشوروں کے بقول اگر آپ کے پاس اپنے بچوں کی تربیت کے لئے وقت نہیں ہے تو یاد رکھیں سماج کے پاس انہیں برباد کرنے کے لئے پورا وقت موجود ہے۔
بدقسمتی سے زمانے کی تیز رفتاری نے والدین، اساتذہ، معاشرے، میڈیا اور حکومت سے بچوں کی تعلیم و تربیت کا وقت چھین لیا ہے۔فی زنانہ، ہماری قوم ایک بپھرے ہوئے ہجوم کا منظر پیش کر رہی ہے۔برداشت کا عنصر تو سرے سے ہی غائب ہو گیا ہے۔اس کی ایک وجہ چیخنے والے چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں۔مہنگائی نے لوگوں کے دل و دماغ سے صبر کا مادہ نکال باہر کیا ہے۔چیخنے والوں کے اس افسانے کا جواب دینے والے یہ جواب دیتے ہیں کہ بھلے زمانے میں غربت نے ہم پاکستانیوں کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا، لیکن افلاس اور تنگ دستی کے اس دور میں بھی لوگ باؤلے ہو کر ایک دوسرے کے گلے نہیں پڑتے تھے۔
آج کل تو بات مرنے، مارنے تک پہنچ گئی ہے۔اس عدم برداشت کا عملی مظاہرہ آپ کو ہر جگہ ہی ملے گا، یہاں یہ لکھنا مناسب ہی ہو گاکہ اس صورت حال تک پہنچانے میں ہمارے بڑوں کا بڑا ہاتھ ہے۔خیر سے ہمارے اکابرین اپنی ہر بات گالی سے شروع کر کے گالی پر ہی ختم کرتے ہیں۔مخالفین کو الٹے سیدھے ناموں سے پکارنا، سوشل میڈیا کا غلط استعمال، ٹوئیٹر پر چلائے جانے والے بھونڈے ٹرینڈز، بنا ثبوت دوسروں پر الزام تراشی کی ایف آئی آر، آڈیو، وڈیوز کا اتوار بازار، چھینا جھپٹی، میں ناں مانوں کی رٹ کا 9/11، یوم تباہ، ہم 9 مئی قومی املاک نذرِ آتش کرنے کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ صدافسوس!
ابھی محسن کش قوم کے چند بھٹکے مسافروں کی طرف سے شہداء کی یادگاریں مٹانے کا نوحہ ہم پڑھ ہی رہے تھے کہ اچانک ڈاکٹر سعد آف چلڈرن ہسپتال لاہور پر کئے جانے والے بہیمانہ تشدد کی ویڈیو دیکھ کر دل چھلنی سا ہو گیا۔ہر آنکھ اشک بار تھی۔ہم کتنے ظالم لوگ ہیں جن سے علاج کرانے آتے ہیں۔ انہی کے ساتھ ظلم کی داستانیں رقم کر کے چلتے بنتے ہیں۔ کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں مگر ہر اِذن کا اللہ سے ہونے کا یقین ہمارا بس اتنا ہے۔ڈاکٹر کے پاس مریض آگیا ہے تو ڈاکٹر کو اسے اللہ میاں بن کر ہر حال میں بچانا ہے ورنہ دوسری صورت میں ڈاکٹر کو جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔قطع نظر اس کے مریض کو آخری سٹیج پر انتہائی سیریس حالت میں اسپتال لایا گیا۔ پہلے وقت پر مریض کا علاج کیوں نہیں کرایا گیا؟ محلے کے چاچے، مامے، خالہ، دودھ، دہی و پکوڑے بیچنے والوں، نیم حکیموں، گھریلو ٹوٹکوں، پھکیوں، کشتوں اور سفوفوں سے کام کیوں چلایا گیا؟ کسی مستند ڈاکٹر کو وقت پر کیوں چیک اپ نہیں کرایا گیا؟
اپنے دیس میں آج تک ان جملہ سوالات کا جواب مریض کے لواحقین میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں دے سکا ہے بس ہمارا مریض اسپتال آپ ڈاکٹروں کے پاس آ گیا ہے۔اسے سپرفٹ کر کے گھر بھیجنا ڈاکٹروں، طبی عملے کا اولین فرض ہونا چاہیئے۔مریض کے علاج میں کمی کوتاہی کو ایک سکینڈ کے لئے برداشت نہیں کیا جائے گا اور تو اور ڈاکٹروں نے مریض کی تشویش ناک حالت بارے لواحقین کو تفصیل سے بتا دیا ہو۔یہ بات پتھر پر لکیر ہے۔ مریض کو کچھ بھی ہونے پر قصور وار ڈاکٹر ہی ہو گا۔
شکر الحمدللہ!
سروے کروا کر دیکھ لیں۔اپنی صحت بارے خیال رکھنے کے حوالہ سے ہماری قوم کا آخری نمبر ہو گا۔ہم اپنے کھانے پینے پر ایک ٹائم میں ہزاروں روپے خرچ کر لیں گے۔طبیعت خراب ہونے پر چند پیسوں کی دواء کھانے میں لیل وحجت سے کام لیں گے۔رات کو پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہی سو جائیں گے۔کولڈ ڈرنکس، بیکری پراڈکٹس، میٹھا کھائے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہوتا۔400 سے 600 تک شوگر لیول رکھنا، بلڈ پریشر کنٹرول نہ کرنا، پرہیز علاج سے بہتر ہے کے مسلمہ اصول کو پلے نہ باندھنا، ہر اس بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینا جو ہماری اچھی صحت سے متعلق ہو، ہمارا محبوب ترین مشغلہ بن چکا ہے۔
پیارے دیس میں بیچارے ڈاکٹر کریں تو کریں بھی کیا؟
ڈاکٹر بننے کے لئے کتنا لمبا سفر اور پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یہ ہمارے بے رحم معاشرے کے بھلے مانس لوگ نہیں جانتے ہیں۔ڈاکٹر بننے کی یہ سٹوری بھی پڑھ لیں۔
پہلے پہل میٹرک، ایف ایس سی، میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ کا پل صراط، ایم بی بی ایس کے پانچ کٹھن سال، گریجوایشن کے بعد سپیشلسٹ ڈاکٹر بننے کی دوڑ، ایف سی پی ایس پارٹ ون کا امتحان پاس کرنے کے بعد پارٹ ٹو ٹریننگ ٹیچنگ اسپتال داخلہ لینے کے لئے ایک سال کی دیہی مرکز صحت کی جاب پھر پارٹ ٹو کے لئے ٹریننگ کے مشکل ترین پانچ سال، ہیلتھ سیکریٹریٹ کی انڈکشن پالیسی کا کوڑا، یعنی 23 سال دن رات، نہ کھانے، پینے، سونے کا ہوش اور نہ خوشی، غمی، عید، شب برات کا پتہ، 24/7 ایک ہی سبق، سب سے پہلے مریض صرف یہی نہیں انسان کی آنکھ، ناک، کان سے نکلنے والے گند، منہ سے کی گئی الٹی، قے، پیشاب، پاخانے کی بدبو کون خندہ پیشانی سے سونگھ کر اپنے فرائض کو کون انجام دیتے ہیں۔
یہ بدقسمت ڈاکٹر ہی اپنی عزتِ نفس کا سودا کر کے کرتے ہیں اور بہت سے ڈاکٹروں کی کمر کئی گھنٹوں کے آپریشن کے بعد جواب دے جاتی ہے اور آپریشن کے دوران ڈاکٹر کی ٹینشن کا اندازہ کوئی بھی نہیں کر سکتا،پروفیسر کہتے ہیں۔ سرجنز اس اضطرابی کیفیت کی وجہ سے اپنی عمر 15 سال کم ہی سمجھیں۔
قسمت کے مارے پاکستانی ڈاکٹر سرکاری اسپتالوں میں کم تنخواہ، زیادہ ڈیوٹی اور بنا سہولیات دو، دو سو مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں اور ان مریضوں نے دس، دس سوال کرنے ہوتے ہیں، ایسے ایسے خوبصورت چیمپئن مریض جو خود ڈاکٹر بن کر رعب جھاڑتے ہیں،نہ ڈاکٹر کی بتائی گئی ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر کو دوبارہ چیک کروانے کے لئے پرانا نسخہ ساتھ لاتے ہیں، غلطی سے ان مریضوں کو رش کی وجہ سے تھوڑا انتظار کے ساتھ یہ کہہ دو، بھئی تم خوش قسمت ہو، تمہارا معائنہ فوری ہو رہا ہے، تم امریکہ، برطانیہ، یورپ ہوتے تو سال بعد چیک اپ کا وقت ملتا، اللہ ما شا ء اللہ، وہ مریض ڈاکٹروں کو سرکاری اسپتال میں یہ طعنہ دیتے پرچی پھاڑ کر چلتا بنتا ہے، تم ہمارے ٹیکسوں پر پلتے ہو۔ہم فلاں ایم این اے، ایم پی اے، نمبردار یا محلے کے کسی کن ٹٹے کے آدمی ہیں۔
یہ کہانی ہمارے ہسپتال کے ہر ڈاکٹر کی آب بیتی ہے۔ عرف عام میں لوگوں کا خیال یہ ہے۔
سردی، گرمی، دھوپ، بارش، آندھی، طوفان، ٹریفک کا اڑدہام ڈاکٹروں پر اثر نہیں کرتے ہیں۔ڈاکٹر تو جیسے لوہے کے بنے روبوٹ ہوتے ہیں۔وہ چائے، ناشتہ، لنچ، ڈنر سے مبرا ہیں۔ان کے بچے بھی شاید نہیں ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے بوڑھے والدین ہوتے ہیں، ڈاکٹر شاید کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں اور ڈاکٹر بنتے ہی ہر طرف پیسوں کی ریل پیل ہو جاتی ہے۔ڈاکٹروں کے پاس بڑا مال ہوتا ہے۔ڈاکٹر غلط پریکٹس کرتے ہیں۔پیسے کے لئے غلط آپریشن کرتے ہیں۔ ڈاکٹر بڑے بدتمیز ہوتے ہیں۔مریضوں کی بات نہیں سنتے ہیں۔ڈاکٹروں کو اللہ یاد نہیں ہے، حالانکہ ایسا سو فیصد درست نہ ہے۔یہ ناچیز اس بات سے انکار نہیں کر رہا ہے اور نہ ہی اپنے پیٹی بھائیوں کی سائیڈ لے سکتا ہے۔جو بات غلط ہے اسے غلط ہی کہنا چاہئے۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے۔ڈاکٹروں میں بھی کالی بھیڑیں پائی جاتی ہیں،جن کی مکروہ حرکات سے طب جیسا پیغمبری شعبہ بدنام ہے مگر سب ڈاکٹروں کو ایک ترازو میں تولنا انصاف کے مبنی اصولوں کے منافی ہے۔ہمیں اچھے برے میں تفریق تو بہرحال کرنا ہو گی۔اپنے دیس میں جہاں پہلے ہی ڈاکٹروں کی کمی ہے اور جو ڈاکٹر بچے کھچے ہیں۔ وہ بھی صرف عزت کی خاطر بیرون ملک سدھار رہے ہیں تو ہمیں معاشرے کے سب سے مظلوم طبقے کے حامل ڈاکٹروں کو عزت دینا ہو گی۔