تمہارے سینے میں گدگدیاں نہیں اٹھتیں۔۔۔؟ اب پنڈت چڑی لڑاوا صاحب آ رہے ہیں“ (شفیق الرحمان کی مزاح سے بھرپور تحریر )

تمہارے سینے میں گدگدیاں نہیں اٹھتیں۔۔۔؟ اب پنڈت چڑی لڑاوا صاحب آ رہے ...
 تمہارے سینے میں گدگدیاں نہیں اٹھتیں۔۔۔؟ اب پنڈت چڑی لڑاوا صاحب آ رہے ہیں“ (شفیق الرحمان کی مزاح سے بھرپور تحریر )

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 قسط: 7

آہا ہمیں ایک شعر یاد آ گیا۔ 
بات سچی ہے بے مزا لگتی
میں کہوں گا مگر خدا لگتی!
اچھا! آوارہ گرد صاحب! اب آپ تشریف لے آئیے۔ آوارہ گرد صاحب کے افسانے محض مزدوروں کے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ مزدوروں کی رگ رگ سے واقف ہیں اور مزدور ان کی رگ رگ سے۔ لیکن آوارہ گرد صاحب! یاد رہے کہ سوالات نپے تلے ہوں۔ مختصر ہوں اور بامعنی ہوں۔ ادھر آجائیے۔ یہ لیجیے اب آپ خود سنیے!“ 
آوارہ گرد، ”بھئی مزدور! جب تم کسی امیر آدمی کو دیکھتے ہوگے تو تمہارا خون ضرور کھولنے لگتا ہوگا؟“ 
مزدور، ”نہیں تو!“ 
ادیب، ”نہیں؟ غضب خدا کا! اور جب تم کسی خوش پوش شخص کو موٹر میں دیکھتے ہو تو سماج پر لعنت ملامت نہیں بھیجتے؟“ 
مزدور، ”سماج کیا ہوتا ہے؟ اور میں کبھی کسی کو گالی نہیں دیتا۔۔۔ یہ بہت بری بات ہے!“ 
ادیب، ”تمہیں خیال تو آتا ہوگا کہ یہ شحص موٹر میں کیوں بیٹھا ہے؟“ 
مزدور، ”اس لیے کہ اس کے پاس موٹر ہے!“ 
ادیب، ”اوں ہوں! وہ تو ٹھیک ہے، لیکن آخر کیوں ہے اس کے پاس موٹر؟“ 
مزدور، ”اس نے موٹر خریدی جو ہے۔“ 
ادیب، ”تم سرمایہ داری کی اس لعنت پر نفرت کی بوچھاڑ ڈالتے ہوئے مساوی حقوق کے لیے کوشاں ہونا اپنا فرض اولین تصور نہیں کرتے؟“ 
مزدور، ”قسم لے لو جو ایک لفظ بھی سمجھ میں آیا ہو۔ ابھی وہ دبلے پتلے سے آدمی بھی ایسی ہی باتیں کر رہے تھے!“ 
ادیب، ”مثلاً تم یہ نہیں سوچتے کہ آخر امیر، امیر کیوں ہیں؟ اور غریب، غریب کیوں ہیں، سارے امیر غریب کیوں نہیں بن جاتے؟ اور غریب امیر کیوں نہیں ہوجاتے؟ تا کہ جو غریب غربت میں غریبی کے متعلق غریبانہ۔۔۔!“ 
اناؤنسر، ”آوارہ گرد صاحب! افسوس ہے کہ ہم آپ کو ٹوک رہے ہیں۔ بھلا آپ غریبی کی گردان کیوں کر رہے ہیں؟“ 
ادیب، ”افوہ! معاف کیجیے! ہاں بھئی مزدور تم امیر آدمیوں سے دل میں دشمنی ضرور رکھتے ہوگے!“ 
مزدور، ”نہیں! دل میں کبھی کسی سے دشمنی نہیں رکھنی چاہیے۔ دل صاف ہو تو اچھا ہے۔۔۔ اور پھر سارے انسان برابر ہیں!“ 
ادیب، ”تم عجیب و غریب مزدور ہو۔ نہ تم سماج کے خلاف ہو، نہ سرمایہ داری کو برا کہتے ہو۔ امیروں سے بھی نفرت نہیں کرتے۔ تعجب ہے! اب کیا خاک پوچھوں تم سے؟“ 
اناؤنسر، اچھا آوارہ گرد صاحب! آپ کا انٹرویو ختم ہوا۔ اب پنڈت چڑی لڑاوا صاحب آ رہے ہیں۔ آخر میں مزدور چند الفاظ میں اپنی درد بھری داستان سنائے گا۔ سامعین! ہم ایک مرتبہ پھر یاد دہانی کے طور پر عرض کرتے ہیں کہ اگر کمزور دل خواتین یا بچے ریڈیو سن رہے ہیں تو انہیں براہِ کرم دوسرے کمرے میں بھیج دیا جائے۔ مزدور کی کہانی اس کی اپنی زبانی اتنی غم ناک ہوگی کہ پنڈت صاحب نے ابھی سے رونا شروع کردیا ہے۔ آجائیے پنڈت صاحب! روئیے مت! آپ کی صحت پر برا اثر پڑے گا۔۔۔ اور بھئی مزدور یہ تم چلغوزے وغیرہ بعد میں چبا لینا، عجب بے صبرے آدمی ہو تم بھی۔ پنڈت جی تمہاری حالت پر رو رہے ہیں اور تم ہو کہ منہ چلا رہے ہو۔۔۔ تو سامعین سنیے!“ 
پنڈت جی، (گرجتی ہوئی آواز میں رک رک کر۔۔۔) ”اے ہندوستانی قومیت کے پرستار۔۔۔ ہم تجھے سلام کرتے ہیں!“ 
مزدور، ”وعلیکم السلام!“ 
اناؤنسر، ”ہشت!“ 
پنڈت جی، ”ہاں! اے ہندوستانی قومیت کے پرستار، ہم تجھے سلام کرتے ہیں۔۔۔ اے ہندوستانی تہذیب کے علمبردار!“ 
مزدور، ”میں نمبردارنہیں ہوں۔ میں تو۔۔۔!“ 
پنڈت جی، ”مت ٹوک مجھے۔ یہ لفظ نمبردار نہیں تھا بلکہ علمبردار تھا۔ آہ! تمہارے بھولے پن نے میرے دل پر رقت طاری کر دی۔ میرے قلب میں انتشار پیدا کردیا۔ تمہارے دل میں ایک انقلاب کی خواہش کروٹیں نہیں لیتی کیا؟ کبھی تمہارے سینے میں گدگدیاں نہیں اٹھتیں۔۔۔ نہیں اٹھتیں کیا؟“ 

( جاری ہے )

 "شگوفے " سے اقتباس