یہ چٹانوں اور گہری کھائیوں کا ایسا گورکھ دھندا ہے جس میں انسانی قدم کم ہی پڑتے ہیں،گرمیوں میں یہ وادی انگاروں کی طرح دہکتی ہے

یہ چٹانوں اور گہری کھائیوں کا ایسا گورکھ دھندا ہے جس میں انسانی قدم کم ہی ...
یہ چٹانوں اور گہری کھائیوں کا ایسا گورکھ دھندا ہے جس میں انسانی قدم کم ہی پڑتے ہیں،گرمیوں میں یہ وادی انگاروں کی طرح دہکتی ہے

  

 مصنف:شہزاد احمد حمید
 قسط:38
پتھروں کا جہاں 
”عظیم بلند یوں اور غاروں جیسی پستیوں کی سرزمین۔“ 
 (انگریز سیاح کانوائے)
انگریز سیاح ”کانوائے“ اس خطے کے بارے لکھتا ہے؛
 ”یہ عظیم بلندیوں اور غاروں جیسی پستیوں کی سرزمین ہے۔ میں نے آج تک ایسی وادی نہیں دیکھی جوحجم اور نوعیت میں اس کا مقابلہ کر سکتی ہو۔ یہ عرب کے خشک دریاؤں کی طرح بنجر ہے۔ یہ عمودی چٹانوں سے گھری ہے۔ یہ چٹانوں اور گہری کھائیوں کا ایسا گورکھ دھندا ہے جس میں انسانی قدم کم ہی پڑتے ہیں۔نباتات سے محروم، پتھریلے اونچے راستے جن پر چلنا ایسا ہی ہے جیسے انسان چاند پر چلنے کی کوشش کرے ان بد شکل چٹانوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ گرمیوں میں یہ وادی انگاروں کی طرح دہکتی ہے۔سردیوں میں یہ برف کی چادر اوڑھ لیتی ہے۔اس سے عظیم بیابان دنیا کے اور کسی حصے میں ملنامحال ہے۔ اس اجنبی سرزمین پر خوف کا احساس غالب رہتا ہے۔“
کانوائے کے الفاظ حقیقت کے عکاس ہیں۔ یہ ہے وادی سکردو سے رائے کوٹ برج تک آنے والے سفر کا تعارف۔ در حقیت اگر اسے سکردو سے تھاکوٹ برج تک کا منظرنامہ کہا جائے تو ہر گز غلط نہ ہو گا۔
 جیسے ہی سرحد پار کے دریاؤں کے باپ سندھو کی آواز میرے کانوں میں پڑی؛”میں بٹالک سیکٹر کے پہاڑوں کی بھول بھلیوں میں ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑوں کے درمیان آباد چند کچے مکانوں اورکچھ مکینوں پر مشتمل چھوٹی سی بستی”وانکو“ کے قریب سے ”مرول ٹاپ“ کے مقام سے بہتاپاکستان میں داخل ہوتا ہوں۔۔ ”وانکو برج“ میرے دونوں کناروں کو ملاتا ہے۔ دور اوپر پہاڑوں کی چوٹیوں پر پاکستانی فوجی چوکیاں ہیں جن کو راستہ اسی بستی کی بغل سے جاتا ہے۔ وانکو سے بھارتی سرحد تقریباً 1 گھنٹے کی پیدل مسافت ہے۔قدیم زمانے میں یہاں سے لیہہ تک کا پیدل سفر 4 ہفتوں میں کئی مراحل میں طے ہوتاتھا۔قدیم زمانے میں لوگ لکڑی اور چمڑے سے بنی کشتی جسے لداخی زبان میں ”زخ“ کہتے ہیں، مجھ سے آر پار آیا جایا کرتے تھے۔“  
میں 1971ء کی پاک بھارت جنگ سے پہلے”ہنورمن“گاؤں جو اس وقت پاکستان کا حصہ تھا اور اس جنگ کے بعد بھات کے قبضہ میں چلا گیا پاکستان میں داخل ہوتا تھا۔ اب پہلی پاکستانی آبادی وانکو ہے۔۔ ہنورمن گاؤں کا بھی عجیب قصہ ہے کہ گاؤں تو سارا بھاتی قبضے میں چلا گیا مگر مرول ٹاپ پر واقع حضرت شیخ نجف علی ؒ کی درگاہ پاکستانی علاقے میں ہی رہ گئی ہے۔ یہ زیارت گاہ اپنے عقیدت مندوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے لیکن اب ہنورمن گاؤں کے واسی اس زیارت گاہ تک نہیں آ سکتے جبکہ پاکستانی زائر اس درگاہ تک جانے کے لئے ”بلارگو“ گاؤں تک جیپ سے پہنچتے ہیں اور وہاں سے تقریباً پنتالیس (45) منٹ کی پیدل مسافت طے کرکے مزار پر حاضری دیتے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، منتیں مانگتے ہیں اور واپس لوٹ جاتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ اللہ کے کرم اور اس بزرگ کی وساطت سے ان کی مرادیں بر آئیں گی۔ ہنورمن گاؤں میں ایک سماجی کارکن واحد اللہ نے مجھے بتایا؛”اس باڈر پر بھی پاکستانی اور بھارتی حکومت کو مزار تک آنے جانے کے لئے ویسا ہی بندوبست کرنا چاہیے جیسا ”کرتارپور“ راہداری پر سکھ زائرین کے لئے کیا گیا ہے۔“یہ مطالبہ جائز اور وقت کی ضرورت بھی ہے۔(میں کرتارپور اس دور میں گیا تھا جب ابھی یہ راہداری نہیں تھی۔ گرو گوبند سنگھ جی یہاں گرو تھے۔ ان سے میری اچھی شناسائی تھی کہ ان دنوں میں ڈائریکٹر مقامی حکومت گوجرانوالہ تھا۔) 
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -