من چاہی تفسیر سفید فام کا واحد نظریاتی ہتھیار ہے جس سے وہ لاکھوں غیر سفید انسانوں کو غلام بناتا چلا آ رہا ہے،9جج مل کر بھی  نیگروز کیلئے کوئی واضح قانون بنانے میں ناکام رہے

 من چاہی تفسیر سفید فام کا واحد نظریاتی ہتھیار ہے جس سے وہ لاکھوں غیر سفید ...
 من چاہی تفسیر سفید فام کا واحد نظریاتی ہتھیار ہے جس سے وہ لاکھوں غیر سفید انسانوں کو غلام بناتا چلا آ رہا ہے،9جج مل کر بھی  نیگروز کیلئے کوئی واضح قانون بنانے میں ناکام رہے

  

مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان 
قسط:106
 ”سفید فام کا کسی سیاہ فام سے یہ پوچھنا کہ کیا وہ اس سے نفرت کرتا ہے؟ ایسے ہی ہے جیسے کوئی آبرو لوٹنے والا اپنی شکار لڑکی سے یا کوئی بھیڑیا کسی بھیڑ سے پوچھے کیا تمہیں مجھ سے نفرت ہے؟ سفید فام کو اخلاقی طور پر اس نفرت کے لیے کسی پر الزام دھرنے کا حق نہیں ہے! جب میرے اجداد سانپ کے ڈسے ہوئے ہوں، میں سانپ کا ڈسا ہوا ہوں تو اگر میں اپنے بچوں کو سانپوں سے بچنے کی تاکید کروں تو سانپ مجھ پر نفرت پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے کیسا لگے گا؟“
 وہ شیطان مجھ سے پوچھتے ”جناب میلکم ایکس، آپ ”ثمراسلام“ کو جوڈو کراٹے کی تربیت کیوں دلواتے ہیں؟“ یعنی اگر کوئی سیاہ فام ذاتی دفاع کے لیے کچھ سیکھ لے تو یہ سفید فام فوراً خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ میں جواب دیتا ”سیاہ فاموں کے جوڈو یا کراٹے سیکھتے ہی یہ کام اتنا منحوس کیوں ہوگیا؟ سارے امریکہ میں، بوائے سکاؤٹس، دی وائی ایم سی اے، حتیٰ کہ وائی ڈبلیو سی اے، پی اے ایل، یہ سب جوڈو سکھاتے ہیں۔ چھوٹے گرامر سکولوں تک میں بچیاں اپنا دفاع کرنا سیکھتی ہیں یہ سب ٹھیک ہے، اچھا ہے لیکن اس وقت تک جب تک سیاہ فام اس کی تربیت حاصل نہیں کرتے۔“
 دوسرا سوال کیا جاتا”میلکم ایکس آپ کی تنظیم کے کل اراکین کتنے ہیں؟ رائٹ ریورنڈ بشپ ٹی چکن ونگ کا کہنا ہے کہ آپ لوگ مٹھی بھر سے زیادہ نہیں ہیں۔“
”جو کوئی بھی آپ کو بتاتا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے وہ دراصل لاعلم ہے اور جسے صحیح علم ہے وہ یہ بات آپ کو کبھی نہیں بتائے گا۔“ میں جواب دیتا۔
 بشپ چکن ونگ قسم کے لوگوں کا حوالہ ہماری ”عیسائیت دشمنی“ کے لیے اکثر دیا جاتا تھا۔ میں اس موضوع پر بھی منہ توڑ جواب دیتا۔”عیسائیت سفید فاموں کا مذہب ہے انجیل مقدس اور اس کی من چاہی تفسیر سفید فام کا واحد نظریاتی ہتھیار ہے جس سے وہ لاکھوں غیر سفید انسانوں کو غلام بناتا چلا آ رہا ہے۔ جس ملک کو بھی سفید فام لوگوں نے بندوق سے فتح کرنے کا ارادہ کیا وہاں پہلے لوگوں کے ذہن و دل کو انجیل اور اس کی تعلیمات کی روشنی میں ”ملحد اور کافر“ قرار دیا گیا۔ اس کے بعد اسلحے کے زور پر وہاں پر قبضہ کیا گیا اس کے بعد اپنے کرتوتوں کو چھپانے کے لیے مبلغین بھیج دیئے جاتے ہیں۔
 سفید فام رپورٹر غصے میں ہمیں سیاہ فاموں کے ”عوامی سرغنہ“(Demagogues) قرار دیتے۔ جب ایک دو بار مسلسل یہ لفظ میرے سامنے بولا گیا تو میں نے اس کا جواب دینے کی کوشش بھی کی۔”اگر یونان پر نگاہ ڈالیں تو سب سے پہلے یہ بات دیکھنا ضروری ہے کہ یونانی (Demogogues) کس کو کہتے تھے اس کے حقیقی معنی ہیں ”لوگوں کا معلم“ اور اگر آپ کچھ عوامی معلمین کو دیکھنا چاہیں تو یونان کی عظیم ترین شخصیت سقراط وہ پہلا شخص ہے جسے عوام کو علم دینے کے جرم میں قتل کیا گیا۔ حضرت عیسیٰؑ نے اس لیے صلیب پر جان دی کہ کیونکہ ان کے عہد کے ”فارسی“ سچائی کے نہیں قانون کے پرستار تھے۔ اسی طرح جدید فارسی بھی ایلیا محمد کو نقصان پہنچانے کے لیے انہیں عوامی سرغنہ، پاگل اور متعصب کے القابات سے پکار رہے ہیں۔ گاندھی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے وہ شخص جسے چرچل نے برطانوی جیل میں کھانا کھانے سے انکار پر ”چھوٹا برہنہ فقیر“ قرار دیا تھا لیکن ایک چوتھائی ارب لوگ، ایک پورا برصغیر گاندھی کی پشت پر تھا اور انہوں نے برطانوی شیر کی دم مروڑ کر رکھ دی۔
 گلیلیو اپنے تفتیشیوں کے سامنے کھڑا کہتا رہا”زمین حرکت کرتی ہے“ اور مارٹن لوتھر کے متعلق کیا خیال ہے جس نے اسے ملحد قرار دینے والے کیتھولک چرچ کے خلاف اپنا تھیسس اسی چرچ کے دروازے پر کیل سے نصب کر دیا۔ ہم عزت مآب ایلیا محمد کے پیروکار اسی طرح کچی بستیوں میں رہ رہے ہیں جس طرح ایک زمانے میں عیسائیت کے پیروکاروں کا فرقہ حشرات الارض کی طرح زیر زمین غاروں میں چھپ کر رہنے پر مجبور تھا لیکن درحقیقت وہ رومی سلطنت کی قبر کھود رہے تھے۔“
 مجھے آج بھی ٹیلی فون پر کی گئیں وہ گرما گرم بحثیں اسی طرح یاد ہیں جیسے یہ کل کی بات ہو۔ رپورٹر غصے میں ہوتے تھے اور میں بھی غصے میں ہوتا تھا۔ جب میں تاریخی حوالے پیش کرتا وہ مجھے حال میں کھینچ لاتے اور انٹرویو اور اپنی ذمہ داری بھول کر اپنے اندر کے سفید شیطان کا دفاع کرنا شروع کر دیتے۔ وہ لنکن کا گڑا مردہ اکھاڑ لیتے اور اس کی غلاموں کی آزادی بطور دلیل پیش کرتے۔ میں انہیں لنکن کی تقاریر ہی میں سے سیاہ فاموں کے خلاف کی جانے والی باتیں بتاتا۔ وہ 1954ء کا "School Integration" کے متعلق عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اٹھا لاتے۔ میں اس کے متعلق کہتا کہ:
”امریکہ کی تاریخ میں اس سے بڑا جادوئی کرتب کبھی نہیں کیا گیا۔ یعنی عدالت عظمیٰ کے9جج جو ماضی میں قانون سازی کے ماہر سمجھے جاتے تھے وہ مل کر بھی کوئی واضح قانون بنانے میں ناکام رہے، ایک طرف انہوں نے نیگروز کو حقوق عطا کرکے ان سے داد لے لی دوسری طرف گوروں سے کہا کہ یہ رہیں اس کی خامیاں۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -