پہلےسائیکل رکشا کثرت سے چلا کرتے تھے،پھر ایک وقت ایسا آیا کہ سارے کراچی کے ذرائع آمد و رفت اور نقل و حمل پر پشتونوں کا مکمل تسلط ہوگیا

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:129
تب کراچی میں سائیکل رکشا کثرت سے چلا کرتے تھے۔ یہ لوگ فارغ اوقات میں رکشے کرائے پر لے لیتے اور اس طرح کچھ اضافی آمدنی حاصل کر لیتے تھے۔پھر جیسے ہی کوئی سمجھتا کہ اب وہ اپنے خاندان کی کفالت کا اضافی بوجھ اٹھانے کی سکت رکھتا ہے تو وہ اپنے گھر کے دیگر افراد کو بھی کراچی بلوا لیتا۔وہیں کہیں کسی کَچی آبادی میں ایک آدھ کمرے کا مکان کرائے پر لے لیتا یا اپنا ذاتی چھوٹا اور سادہ سا گھر بنا لیتا تھا۔ یوں ان کی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔
ایوب خاں کی حکومت آنے کے بعد سائیکل رکشا کو ایک غیر انسانی سواری کہہ کر بتدریج بند کر دیا گیا اور اس کی جگہ موٹر سائیکل رکشامتعارف کروایا گیا۔تب پشتونوں کا رجحان بھی اس نئی سواری کی طرف ہو گیا۔محنت کش اور مضبوط لوگ تھے، مسلسل کئی کئی گھنٹے کام پر لگے رہتے۔ کراچی میں انہی دنوں رکشا اور ٹیکسی وغیرہ قسطوں پر دینے کا چلن بھی عام ہوا، جس کے لیے اصل قیمت سے کوئی ڈیڑہ دو گنا زیادہ ادائیگی کرنا پڑتی تھی مگر چونکہ ماہانہ قسطیں ان کی پہنچ میں ہوتی تھیں تو وہ آسانی سے ادائیگیاں مکمل کرکے گاڑی کے مالک بن جاتے تھے۔ کئی لوگوں نے تو ایک سے زیادہ گاڑیاں خرید لی تھیں اور وہ اپنے عزیزوں کو آبائی علاقوں سے بلا کر یہ گاڑیاں ان کے حوالے کر کے نہ صرف اپنی ا ٓمدنی میں اضافہ کرتے بلکہ ان کے روزگار کا وسیلہ بھی بنتے تھے۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ سارے کراچی کے ذرائع آمد و رفت اور نقل و حمل پر ان کا مکمل تسلط ہوگیا۔ رکشوں کے بعد انہوں نے، بسوں ٹرکوں اور ٹینکر وغیرہ کے کاروبار میں بھی اپنی اجارہ داری قائم کرلی۔ کراچی کے اردو بولنے والے مہاجروں نے اُس وقت اس بات پر ناگواری کا اظہار نہیں کیا تھا،کیوں کہ یہ کام ان کی طبیعت کے موافق بھی نہ تھا، ان کا پشتون محنت کشوں سے کم از کم اس بات پر براہ راست کوئی ٹکراؤ بھی نہیں تھا۔ ہر کوئی اپنے مقام پر خوش تھا اور اپنے میدان عمل میں عزت کی روٹی کماتا تھا۔ آہستہ آہستہ کراچی میں پشتونوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ ان کے بچے بھی اب مقامی سکولوں اور کالجوں میں پڑھنے لگے تھے۔ پشتونوں نے بھی کراچی میں ایک ہی جگہ رہنے کو ترجیح دی۔ جگہ جگہ اپنی کچی آبادیاں بسا لیں اور پھرمستقل طور پر یہیں کے ہو رہے۔
یہ لوگ اپنے ساتھ اپنی ریت روایتیں بھی لائے تھے جو دوسروں سے قدرے مختلف اور کسی حد تک سخت بھی تھیں۔ اس لیے یہ دوسری قومیتوں سے تھوڑا الگ تھلگ ہی رہے۔ ان کے ہاں لڑائی جھگڑوں کو نبٹانے کے لیے ان کے آبائی علاقوں کی طرح یہاں بھی جرگے بیٹھتے تھے اور بڑے بزرگ ہی آپس میں بیٹھ کر کسی قضیہ کا تصفیہ کرتے تھے جس پر ہر کوئی سر تسلیم خم کرتا تھا۔شادی بیاہ کی رسموں کے دوران اور خوشیوں کی موقعوں پر وہ اپنے روایتی رقص بھی کرتے تھے۔ بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ چند نوجوان اکٹھے ہو جاتے اور وہیں ڈھول کی تھاپ پرقبائلی رقص شروع کردیتے تھے۔
پشتون مجموعی طور امن پسند لوگ تھے، لیکن ان میں یقیناکچھ شر پسند اور جرائم پیشہ لوگ بھی شامل ہو گئے تھے جو غیر قانونی کام کرتے تھے۔وہ چھوٹی موٹی وارداتوں کے علاوہ نشہ آور اشیا ء کے کاروبار میں بھی ملوث ہو جاتے، حالانکہ ان وقتوں کا نشہ محض چرس تک ہی محدود ہوتا تھا۔ ان میں سے کئی تو پہاڑوں سے اترتے وقت دشمنیاں بھی ساتھ لے آتے اوریہاں لڑائی جھگڑا کرکے اور انتہائی حا لات میں قتل و خون کر کے ایک دوسرے کا حساب بے باق کرتے رہتے تھے۔”گن کلچر“ ابھی ان میں پوری طرح سرایت نہیں کیا تھا،البتہ کچھ لوگوں کے پاس خطرناک اسلحہ ضرورہوتا تھا جس کی وہ کھلم کھلا نمائش کرتے رہتے تھے۔ بہر حال وہ کسی نہ کسی طرح اس معاشرے میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)