وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے۔۔۔تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔۔۔بے یقینی تحیر اور شک شبہ کی کش مکش اقبال کے ہاں نہیں ملتی

Jun 06, 2023 | 10:04 PM

 مصنف: جمیل اطہر قاضی
 قسط:40
اقبالؒ کا شاعرانہ لب و لہجہ
پروفیسر یوسف زاہد ایم اے
علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ کرتے وقت جو چیز سب سے زیادہ نمایاں معلوم ہوتی ہے وہ ان کے لب و لہجے کی بلند آہنگی ہے جس کا رعب و جلال ایک باشعور قاری کو فوراً اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے۔ ان کے لب و لہجہ کی پُر زور آرزو مندی، پُر خروشی، تند و تیزی اور گرم رفتاری کا جب بنظر ِعمیق مطالعہ کریں تو اُردو شاعری کی روایت میں ان کی بلند آہنگ لے اور جارحانہ آواز سب سے الگ اورمنفرد نظر آتی ہے۔ ان کی ہر بات میں یقین و اعتماد ہے۔ ان کے اشعار سے سامع کے دل میں خود بخود جوش و ہیجان پیدا ہو جاتا ہے۔ بانگ درا کی کچھ نظموں کے سوا بے یقینی تحیر اور شک شبہ کی کش مکش اقبال کے ہاں کہیں نہیں ملتی۔ بلکہ ہر جگہ توسیع و تسخیر، پیش قدمی اور چھا جانے کی شدید آرزو پائی جاتی ہے۔ اسی چیز نے ان کے لب و لہجہ میں ایک ایسی قوت اور بلند آہنگی پیدا کر دی ہے جو ان کا خاصہ خاص ہے۔ ان کی آواز کسی بھی گوشے سے سنائی دے وہ اپنی انفرادیت کو ظاہر کر ہی دیتی ہے اور سامع فوراً اسی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ اس میں ایسی ہیبت انگیزی اور للکار ہے کہ اس سے ڈر اور خوف سا پیدا ہونے لگتا ہے۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے اس جارحانہ لب و لہجہ کے عناصرِ ترکیبی کیا ہیں؟ وہ کون سے محرکات ہیں جس سے ان کے لہجے میں اس قدر جوش و خروش پیدا ہوا؟ جس زمانہ میں اقبال نے ہوش سنبھالا وہ ایک پُر آشوب زمانہ تھا۔ مشرق و مغرب میں ایک زبردست مسابقت تھی۔ مذہب اور سائنس میں سخت آویزش تھی۔ قدیم و جدید اقدار ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں۔ ہندوستان کے سیاسی، اقتصادی، سماجی، اخلاقی، نظریات و حالات میں عظیم تغیر و تبدل رونما ہوا تھا۔ مسلمانانِ ہند بلکہ تمام اقوام ایشیا از سرِ نو بیدار ہورہی تھیں۔ سر سید تحریک نے ہندوستانیوں اور بالخصوص مسلمانوں کو جدید تعلیمات اور نئے علوم و فنون سے روشناس کرانے کی جو کوشش شروع کی تھی اس سے ان میں سیاسی اور اقتصادی شعور پیدا ہو رہا تھا۔ علاوہ ازیں حصول آزادی کی تحریک بھی ذہن و فکر کو متاثر کررہی تھی۔ یہ تھے وہ حالات جن میں اقبال نے نشوونما پائی اورشاعری شروع کی۔ ان کے ذہن و فکر کی تشکیل ایسے ہی حالات میں ہوئی تھی چوں کہ یہ کش مکش اور ہلچل کا زمانہ تھا اور اقبال ایسے ہی زمانے کے شاعر تھے۔ اس لئے یہ ایک فطری اورقدرتی امر ہے کہ ایسے زمانے کا شاعر بھی سرگرمی، جوش عمل اور تحرک کا پیغام بر ہو۔ چنانچہ ان بدلتے ہوئے حالات کے اثرات اقبال کی شاعری اور لب و لہجہ پر بھی نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ پھر اقبال چوں کہ ایک ملی اور اجتماعی شاعر تھے اور ان کا مقصد ”ناقہّ بے زمام“ کو قطار کی طرف کھینچنا تھا۔ اس لئے ان کی شاعری میں پیغام کا پہلو بھی آگیا۔ اس پیغام کے عنصر نے ان کی شاعری میں بعض جگہ خطابتی انداز اور تلقینی لب و لہجہ بھی پیدا کر دیا۔ 
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں 
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی رہی نہ تیری وہ آئینۂ ضمیری
اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری
مانندِ صبا خیز و زیدن دگر آموز
دامانِ گُل ولالہ کشیدن دگر آموز
اندر دلک غنچہ خزیدن دگر آموز
( جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزیدخبریں