جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو عرصہ ڈیڑھ سال کے لئے سیاسی قیادت کو منظم کر کے ملک بھر میں عوام کے حقوق کو بطریق احسن حل کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ وہ دیگر مفادات کو مسترد کر کے اسلامی اقدار اور اصولوں کو ترجیح دے کر عمل پر یقین کامل رکھنے والے قابل اعتماد سیاسی رہنما ہیں۔ جن کے ملکی سیاست میں سرگرم عمل رہنے سے اسلام بیزار لوگ دین حق کے آفاقی ہمہ گیر اور دائمی اصولوں سے اختلاف رائے تو درکنار بلکہ ان پر اپنی مرضی اور من مانی حرف گیری کرنے سے بھی خائف اور گریزاں رہتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا نقطہ نظر واضح اور دبنگ الفاظ کے حوالوں اور مضبوط دلائل پر مبنی ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی میدان میں ان کے مستند بیانات اور تبصرے اہل وطن کی سیاسی سوچ و فکر میں خاصا علمی اضافہ اور رہنمائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ ملکی سیاست پر غیر ملکی حالات کے واقعات کو دیکھ کر گاہے بگاہے اپنے تاثرات کا اظہار کر کے بیرونی سازشوں اور ان کے ذمہ دار ممالک یا اداروں کے عزائم سے بھی جرات و ہمت سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ یہاں اسلام بیزار بعض لوگ ان کی مذکورہ بالا بروقت اور بے باک رائے زنی سے بہت ناراض اور نالاں ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ دین اسلام چونکہ مکمل ضابطہ حیات ہے اور وہ ہر شعبہ زندگی میں انسان کی رہنمائی کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ اس لئے مخالف عناصر اور قوتوں کو ان کا مذکورہ بالا اسلامی تعلیمات پر مبنی اظہار زیادہ تر قابل قبول نہیں ہوتا کیونکہ اسلامی احکامت اور تعلیمات پر یہاں عمل داری کا درس ان کی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے۔ یوں مولانا فضل الرحمن اسلام پسندی کا حق پرستی پر عوام کی رہنمائی کا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
غیر ملکی طاقتوں کے وطن عزیز کی محب وطن شخصیات پر مختلف ذرائع اور زاویوں سے اثر انداز ہونے کا تسلسل حالات کے تحت کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن مولانا گزشتہ کئی سال سے سیاسی کارکردگی میں اسلام دشمن قوتوں کو ملکی امور میں کسی طور مداخلت سے ببانگ دہل خبر دار اور متنبہ کر کے اپنی سازش کاری کی حرکات سے باز رہنے کی غیر مبہم با رعب اور پر اثر آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ عوام کو بیرونی قوتوں اور اندرونی خطرات کے گمراہ کن خطرات سے آگاہ کر کے ملک دشمنی کی تباہ کن کارروائیوں سے دفاع اور تحفظ کے اقدامات پر اکثر اوقات مائل و راغب کرنا ان کی سیاسی اور حب الوطنی پر مبنی کارکردگی کی قابل قدر مثالیں ہیں۔ لیکن یہ امر بھی زیر غور لانا ضروری خیال کیا جائے کہ انتخابی عمل کے روز الیکشن کمیشن کے انتظامات ان کے اعلانات اور ضابطہ اخلاق کی شرائط اور ہدایات کے عین مطابق کوتاہی اور لاپروائی نہ ہونے پائے۔ اس بارے میں مولانا صاحب کے اعتراضات پر انصاف پسند اداروں اور حلقوں کو بہت کم اختلاف ہوگا کیونکہ ہر سنجیدہ مزاج و طبع امیدوار کا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ انداز سے کرانے کے لئے ضروری انتظامات کئے جائیں۔
اس بارے میں مفاد پرست افراد اور عناصر اپنے اثر و رسوخ رشوت ستانی اور غنڈہ گردی کی حرکات کے ارتکاب سے انتخابی کامیابی کے حصول کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یوں الیکشن کمیشن کے وسیع و عریض انتظامات کی کارکردگی کو دھونس اور دھاندلی کی بھینٹ چڑھا کر اور انتخابی غیر جانبداری کو درہم برہم کر کے من مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی روش اختیار کی جاتی ہے بلکہ وہ لوگ تو اس کشمکش میں ہاتھا پائی اور دھینگا مشتی سے بھی باز نہیں آتے۔
معاف کئے سطور بالا میں تحریر بعض انتخابی حلقوں میں پیش افسوسناک حالات، وقوع پذیر ہونے کی خبریں دیکھنے اور پڑھنے میں آتی رہتی ہیں۔ انتخابی معرکہ آرائی میں مولانا فضل الرحمن اور ان کے بعض ساتھیوں کو مذکورہ بالا انداز کی غلط کاریوں کی بنا پر جیت کی بجائے ہار یا شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن مولانا موصوف تو جوانمرد باہمت اور حوصلہ مند رہنما ہیں۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ وطن عزیز کے انتخابی مقابلوں میں تا حال ایسے نا موافق حالات اور حادثات رونما ہونے میں کوئی کمی اور موثر کامیابی کی حکمت عملی کارگر نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ سے دل کی گہرائیوں اور خلوص نیت سے استدعا اور دعا ہے کہ کہ انتخابی عمل میں غیر قانونی طور پر دھونس اور بد دیانتی کے حربوں سے گمراہ کن لوگوں کو راہ راست پر لا کر غیر جانبدارانہ اور منصفانہ طور پر حصہ لینے اور الیکشن کمیشن بھی دباؤ کے تمام احکامات یا اشاروں کو مسترد کر کے عوام کے حقیقی نمائندوں یا زیادہ تعداد میں ووٹ حاصل کرنے والے امیدواروں کی کامیابی کے اعلانات کرنے کی جرات و ہمت عطا فرمائے۔