تصورات کا قحط

تصورات کا قحط
تصورات کا قحط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ایک وفاقی بجٹ حکمران جماعت کو عام انتخابات جیتنے میں مدد دے سکتا ہے بشرطیکہ یہ اس کے دور ِ حکومت کا آخری بجٹ نہ ہو۔ اگر یہ پہلا بجٹ ہو تو رائے دھندگان اس میں کئے گئے وعدوں اور بنائی گئی پالیسیوں کے پورا ہونے یا نہ ہونے سے حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہم کسی حکومت کے مستحکم یا اس کے برعکس ہونے کے حوالے سے اتنے حساس رہتے ہیںکہ ہم ایک عام سی حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جمہوریت میں ہر حکومت اپنی آئینی مدت کے آخری سال میں بے یقینی کا شکار ہو تی ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو اپنی کامیابی کا سو فیصد یقین نہیںہوتا، لیکن بھارت میں ”یو پی اے “(یونائیٹڈ پروگریسو الائنس)کی حالت بے یقینی سے بھی گئی گزری ہے۔ یہ گھبراہٹ کا شکار لگتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دور ِ اقتدار میں جس تذبذب اور سراسیمگی کے عالم میں فیصلے کرنے سے حیل و حجت سے کام لیا ہے، اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑے گا۔
آپ پی چدم برم کے سر پر ریشمی ہیٹ رکھ اُس کے ہونٹوں میں بانسری تھما دیں تو کوئی دیوتا نہیں، بلکہ کوئی شعبدہ باز دکھائی دیں گے، چنانچہ اُن کو اس کارکردگی، جس کا انہوںنے مظاہرہ کیا ہے، پر مورد ِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ،کیونکہ کرنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ وہ ایک ایسی حکومت کے وزیر ِ مالیات ہیں جس کے پاس ” مال “ ہی نہیںہے، تو پھر وہ وزارت میں کیا تیر مار لیںگے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چدم برم نے مالی خسارہ کم کرنے کے لئے بڑی جرات کا مظاہر ہ کرتے ہوئے گزشتہ چند ماہ سے اخراجات کو کنٹرول کیا ہے۔ انہوںنے اخراجات میں اکانوے ہزار کروڑ بھارتی روپے کی کٹوتی کا منصوبہ بنایا ہے ، لیکن یہ کٹوتی کافی نہیںہے ،کیونکہ یہ سیاست اور ہے اور سیاست میں اُن کو مجبوراً دیہی سیکٹر کو رقم فراہم کرنا پڑی۔تاہم اُنہیں امید ہے کہ وہ فروری 2014 تک اسی طرح بچت کر لیںگے۔ فی الحال اُن کا خیال ہے کہ دیگر وزارتیں اُن سے رقم کی فراہمی کا مطالبہ نہیںکریںگی، کیونکہ اُن کے پاس اس کو خرچ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیںہے۔اُن کو اس سے بھی بڑی امید یہ ہے کہ معیشت میں پانچ کی بجائے چھے فیصد تک بہتری آجائے گی اور ریاست کے محصولات میں اضافہ ہو گا ۔ تاہم اگر ماضی سے کوئی سبق لیا جا سکتا ہے تو معیشت کی ترقی کے اعداد شمار تخمینے سے کہیں کم رہتے ہیں۔
2011 ءمیں لئے گئے معاشی جائزے کے مطابق معاشی ترقی کی شرح 7.6 ہونی چاہیے تھی ،لیکن عملی طور پر یہ پانچ فیصد سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اس وقت بھی ایسے حوصلہ افزا اشارے نہیں مل رہے کہ یہ کہا جائے کہ گراوٹ کی شکار ایک معیشت ترقی کے زینے پر قدم رکھ لے گی، خاص طور پر اس وقت جب حکومت غیر یقینی مستقبل سے دوچار ہے۔ معاشی رجائیت ٹھوس امکانات کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ زیادہ امکان ہے کہ سرمایہ کار اگلے عام انتخابات کا انتظارکریں گے اور دیکھیں گے کہ اس ملک میں کون سی حکومت اقتدار میں آتی ہے اور اس کی معاشی ترجیحات کیا ہیں، جن سیاست دانوں اور صحافیوں نے وزیر ِ موصوف کو سراہا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ ان حالات میں سب سے بہتر طرز ِ عمل یہی تھا جس کا مظاہر ہ انہوںنے کیا ہے۔ درست، لیکن اس بات کی طرف کسی کا دھیان نہیںہے کہ یہ حالات پیدا کس نے کئے ؟”یو پی اے“ کم و بیش ایک دھائی سے اقتدار میںہے، اس لئے اس خرابی کاذمہ دار اس کے سوا اور کون ہے ؟
مسٹر چدم برم کو اس وجہ سے بھی پذیرائی ملی کہ انہوںنے اخراجات میں کٹوتی کرتے ہوئے انتخابات کے نزدیک عوام کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لیا تھا۔ ایک مرتبہ پھر اس میں کوئی معقولیت نہیں دکھائی دیتی کہ اُن پر کس ناراضگی کا دباﺅ تھا بی جے پی، مارکسی جماعت، ملیالم یا ممتا ، کسی طرف سے بھی دباﺅ نہیں تھا۔ دراصل اس وقت کانگرس کو سب سے زیادہ عوامی ہمدردی کی ضرورت ہے۔ یہ جماعت اگلے انتخابات میں اس طرح جارہی ہے کہ اس نے ”نیشنل فوڈ سیکورٹی “بل پاس کر دیا ہے، لیکن جیسا کہ ایسے معاملات میں ہوتاہے اس کا کریڈٹ سونیا گاندھی کو جائے گا نہ کہ مسٹر چدم برم کو۔اُن سے تو انتخابات میں یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا انہوںنے بچائی ہوئی رقم کانگرس سے بھی بچائی ہے؟مسٹرچدم برم کی یاد داشت کمزور نہیںہے اور وہ جانتے ہیں، اگر چہ زیر ِ بحث نہیں لاتے، کہ جب انہوںنے 2008 ءمیں دیہی قرضہ جات معاف کئے، نیشنل رورل روزگار پروگرام متعارف کرایا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میںاضافہ کیا توان اقدامات کی بھارت کو کیا قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔ وہ یہ بھی جانتے ہیںکہ آج کا مالی بحران دراصل اُن اقدامات کا ہی نتیجہ ہے ،کیونکہ ان کی وجہ سے مالی خسارہ دو فیصد سے بڑھ کر جی ڈی پی کا چھے فیصد ہو گیا۔ اس میں اضافہ ہوتا گیا یہاںتک کہ خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ تاریخ کے فیصلے سے باخبر، امید ہے کہ چدم برم اب ایسا نہیںہونے دیںگے۔ اس کے لئے اگست یا ستمبر میں کچھ سخت فیصلوںکی ضرورت ہے۔ بر ِ صغیر کی سیاست میںانتخابات کے نزدیک فنڈز میں کمی سیاست دانوںکے لئے ڈراﺅنا خواب ہوتا ہے ،لیکن اب اس کے بغیر کوئی چارا نہیں ہے۔
موجودہ بجٹ میں سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ بجٹ بنانے والوںکے سامنے کوئی تصور نہ تھا۔ چدم برم کو کسی جاندار تصور کی ضرورت تھی ،تاکہ کاروباری طبقے کا اعتماد بحال ہو سکتا۔ مایوسی کے خاتمے کے لئے بعض اوقات ایک لفظ ہی کافی ہوتا ہے اور بعض اوقات سرکاری افسران کی طویل دستاویزات بے اثر ثابت ہوتی ہیں۔ وزیر ِ مالی امور کو کچھ انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے بے کار وزارتیں ، جو قوم پر بوجھ ہیں، ختم کرنے کی تجویز پیش کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر ائیر انڈیا کو چلانے کی کیا ضرورت ہے(ہمارے ہاں پی آئی اے کا بھی یہی حال ہے)۔ اگر وزیر اعظم صاحب کو سفر کے لئے ایک طیارہ چاہیے تو وہ رکھ لیں، باقی طیاروں کا بوجھ قوم کیوں برداشت کرے؟مالی بحران سے نمٹنے کے لئے اسی طرح کے سخت فیصلوںکی ضرورت ہے۔

نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔

مزید :

کالم -