کوٹھا اِک تے ڈھاون والے بُہتے نیں
یہ امر قابل اطمینان ہے کہ اس بار سپریم کورٹ نے ستمبر میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا واضح حکم دے دیا ہے۔بظاہر اب کوئی شک و شبہ نہیں رہ جانا چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات اسی سال ہوں گے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ شکوک و شبہات اب بھی موجود ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ تقریباً دس برسوں سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ افتخار محمد چودھری جیسے چیف جسٹس جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنے ہر حکم پر عملدرآمد کرا لیتے ہیں، بلدیاتی انتخابات کے معاملے میں ناکام ثابت ہوئے۔ ان کے کئی احکامات بھی پس پشت ڈال دیئے گئے، لیکن لگتا ہے اس بار سپریم کورٹ ہر دروازہ بند کر رہی ہے، جہاں سے صوبائی حکومتیں اور الیکشن کمیشن انتخابات نہ کرانے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے تھے۔حکومت اور الیکشن کمیشن کی نیتوں میں فتور تو بہرحال موجود ہے۔ اس کا اندازہ اس شیڈول سے لگایا جا سکتا ہے، جسے سپریم کورٹ نے مسترد کیا۔ اس میں سندھ اور پنجاب میں انتخابات اگلے سال پر ڈال دیئے گئے تھے اور بہانہ انتخابات کے انتظامات کا بنایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے اس بدنیتی کو بھانپ کر شیڈول مسترد کر دیا اور اگلے سال فروری مارچ کی بجائے اس سال ستمبر تک انتخابات کرانے کا حکم جاری کر دیا۔ کچھ لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اس چھ ماہ کے عرصے میں بھی حکومتیں اور الیکشن کمیشن کئی پینترے بدلے گا اور ان کی کوشش یہی ہوگی کہ انتخابات کو مزید لٹکایا جائے، تاکہ بلدیاتی نمائندے حکمرانوں کے اختیارات میں مداخلت نہ کر سکیں، کیونکہ یہ پاکستان ہے،یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے، جیسے فاٹا کے نمائندوں سے چار ووٹ ڈالنے کا اختیار، راتوں رات صدارتی آرڈیننس کے ذریعے واپس لے لیا گیا۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو اعتماد میں لینے کی زحمت گوارا کی گئی اور نہ ہی آئین و قانون کو پیش نظر رکھا گیا۔ کیا عجیب بلکہ غضب جمہوریت ہے کہ جسے دھکا لگا کے سٹارٹ کرنا پڑتا ہے۔ کبھی اسے سپریم کورٹ سٹارٹ کرتی ہے اور کبھی فوج، اپنے طور پر یہ کھٹارہ گاڑی کی طرح کھڑی رہتی ہے۔ حالیہ سینٹ انتخابات سے یہ بات تو واضح ہو ہی گئی ہے کہ یہاں صرف نمبرز پورے کئے جاتے ہیں، اس کے لئے جمہوریت کی ایسی تیسی بھی کرنا پڑے تو اس سے گریز نہیں کیا جاتا۔ ایسی ذہنیت کے ساتھ کس کا دل چاہے گا کہ بلدیاتی انتخابات ہوں اور شیدے، گامے، ساجھے ماجھے اقتدار میں حصہ دار بن جائیں۔ اربوں روپے کے فنڈز اب وزراء اعلیٰ اور بیورو کریسی کی صوابدید پر ہیں۔ سونے کی کان پر بیٹھنے والوں کو یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ بلدیاتی ادارے فعال ہوئے تو ان کے ہاتھ سے سونے کی چڑیا نکل جائے گی، انہیں عوام کی مشکلات یا انہیں سہولتیں دینے کا خیال ایک کاربیکار نظر آتا ہے۔ رہی بات جمہوریت کی تو اس سے ناپسندیدہ شے ہمارے طبقہء اشرافیہ کے لئے اور کوئی ہے ہی نہیں، اسے تو بس اسی لئے گوارا کیا ہوا ہے کہ اس کی آڑ میں اپنا اُلو سیدھا رکھنے کا موقع ملتا ہے۔بوقت ضرورت جمہوریت کے پٹڑی سے اترنے کی دھمکی بھی کارگر ثابت ہوتی ہے، وگرنہ انہیں جمہوریت سے اتنی ہی چڑ ہے، جتنی گنجے کو آئینے سے ہوتی ہے۔ کیا شرمناک حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ یہ احساس دلا رہی ہے کہ جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو بلدیاتی انتخابات کراؤ، کیونکہ دنیا بھر میں جمہوریت کا کوئی تصور بھی بلدیاتی اداروں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ پھر یہ آئینی ضرورت بھی ہے۔ اس قدر واضح صورت حال کے باوجود بلدیاتی انتخابات سے جان چھڑائی جا رہی ہے۔جمہوریت کے چیمپئن کہلانے والے بلدیاتی انتخابات سے ایسے بھاگ رہے ہیں، جیسے کو اغلیل سے جاتا ہے۔ مجھے تو سپریم کورٹ کے جج صاحبان پر رشک آتا ہے کہ وہ کتنے صبر والے ہیں۔ وزیراعظم کو توہین عدالت کی چھوٹی سی دھمکی کے سوا انہوں نے ہمیشہ ٹھنڈے دل و دماغ سے بلدیاتی انتخابات کی تاریخ کی طلب ہے، مگر ثابت ہوا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے عوام کے ساتھ گزشتہ دس برسوں سے جو ڈرامہ ہو رہا ہے، وہ الیکشن کمیشن کی ملی بھگت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ سپریم کورٹ نے بالکل بجا کہا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ موجودہ الیکشن کمیشن کے ارکان تو ویسے بھی بڑے سخت جان ہیں۔ دھاندلی کے بڑے بڑے الزامات اور پھر ثبوت سامنے آنے کے باوجود انہوں نے اپنے عہدوں کو چھوڑنا گوارا نہیں کیا۔ آج بھی کرسیوں کو جپھی ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں۔پاکستان میں بعض عہدوں کو آئینی تحفّظ کس قدر مہنگا پڑتا ہے، اس کی کوئی مثال ڈھونڈنی ہو تو الیکشن کمیشن کے ممبران کو دیکھ لیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الیکشن کمیشن خود عدالت عظمیٰ میں ایک پٹیشن دائر کرتا کہ حکومت بلدیاتی انتخابات نہیں کروا رہی اسے انتخابات کرانے کا حکم جاری کیا جائے۔ اس کی بجائے الیکشن کمیشن حکومتوں کا آلہ ء کار بنا ہوا ہے۔ کبھی نئی حد بندیوں کے نام پر اور کبھی ووٹوں کے اندراج کا بہانا کرکے بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرتا آیا ہے۔ یہ پہلی مثال نہیں کہ چوکیدار چور سے مل گیا ہے، پاکستان میں ایسا اکثر ہوجاتا ہے۔ اور ایسا گٹھ جوڑ ہمیشہ عوام کے خلاف ہوتاہے، خواص کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تو اکثر سنتے ہیں کہ پاکستان میں انصاف بہت مشکل اور تاخیر سے ملتا ہے۔سارا نزلہ عدالتوں پر گرایا جاتا ہے کہ وہ جلد فیصلے نہیں کرتیں، لیکن بلدیاتی انتخابت کیس سے یہ بات غلط ثابت ہوگئی ہے۔ اول تو یہ کہ بڑی سے بڑی عدالت بھی ریاست کے اداروں کی ملی بھگت کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے۔ اس کیس میں تو چونکہ مدعی بھی خود سپریم کورٹ ہے، اس لئے یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ خود سپریم کورٹ کو بھی انصاف لینے کے لئے کئی برس لگ گئے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت عوام کو ان کا بنیادی حق دلانے کے لئے آخری حدوں تک جا رہی ہے اور دوسری طرف عوام کے ووٹوں سے بننے والی حکومتیں ہیں جو پورا زور لگا رہی ہیں کہ عوام کو ان کا یہ حق نہ ملے۔ الیکشن کمیشن ویسے تو ہر ضمنی انتخاب، سینٹ کے انتخابات اور دیگر من پسند کام بروقت کرا دیتا ہے، لیکن بلدیاتی انتخابات کراتے ہوئے اس کی جان جاتی ہے۔ اس کا مطلب بالکل واضح ہے ،جہاں ایلیٹ کلاس کی اجارہ داری ہے، وہاں الیکشن کمیشن اور حکومتوں کو بھی انتخابات کرانے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی، کیونکہ ہر دو صورتوں میں کوئی ان جیسا مراعات یافتہ شخص ہی اسمبلی میں پہنچتا ہے، لیکن بلدیاتی انتخابات میں چونکہ ان لوگوں نے اقتدار میں آنا ہے، جن کا تعلق عام طبقوں سے ہے، اس لئے ان کا راستہ روکنے کے لئے گٹھ جوڑ کر لیا جاتا ہے۔ میں جب اس نکتے پر سوچتا ہوں تو دم گھٹنے لگتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ ریاستی اداروں کی عوام دشمنی کا نوٹس نہ لے تو کون سا ادارہ عوام کی دادرسی کرے گا، یہاں تو عوام کے خلاف سب اکٹھے ہیں۔ اندر سے سب کے تار ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، مقصد یہ ہے کہ عوام پر طبقہء اشرافیہ کا تسلط برقرار رکھا جائے۔ میرے لئے ذاتی طور پر خوشخبری یہ ہے کہ اٹارنی جنرل نے کنٹونمنٹس میں بلدیاتی انتخابات 19مئی کو کرانے کا شیڈول سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں، جنہیں اس دور میں بھی بلدیاتی نمائندگی سے محروم رکھا گیا جب ملک میں بلدیاتی ادارے کام کررہے تھے۔ مشرف دور میں جب ناظمین کا نظام آیا تو تب بھی کنٹونمنٹ کے رہائشیوں کو حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا،اگر کوئی پاکستان میں دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک دیکھنا چاہتا ہے تو وہ ملک بھر کے کنٹونمنٹس میں رہنے والی سول آبادی کو دیکھے۔ سول آبادی کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کی روایت پچھلے 20برسوں سے جاری ہے۔ اس دوران کنٹونمنٹس میں رہنے والے شہریوں پر بے تحاشہ ٹیکس لگائے گئے، ان کی جائیدادوں کی من چاہی ویلیو لگائی گئی، انہیں تعمیرات اور جائیداد منتقلی کے سلسلے میں ظالمانہ قوانین سے مچبور کیا گیا کہ وہ اپنی جائیداد اونے پونے داموں کسی نو دولتئے کو بیچ جائیں۔ جب انگریزوں نے کنٹونمنٹ ایکٹ پاس کیا تھا تو اس میں سول آبادی کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے بلدیاتی نظام کے ذریعے منتخب ممبران اور وائس چیئرمین کا عہدہ رکھا گیا تھا، تاکہ وہ سول اور فوجی نظام کو چلانے میں ایک پل کا کام دے سکے۔ پھر اسے ختم کر دیا گیا اور سول آبادی کے افراد کنٹونمنٹ ملازمین اور افسران کے رحم و کرم پر چھوڑ دیئے گئے۔ جہاں رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا اور شنوائی تو دور کی بات ہے افسران تک رسائیبھی کسی عام آدمی کے بس کا روگ نہیں۔ اب خدا خدا کرکے سپریم کورٹ کے سخت احکامات کی وجہ سے کنٹونمنٹس میں انتخابات ہو رہے ہیں، جو ایک بڑی خوشخبری ہے، مَیں چونکہ خودکنٹونمنٹ کے علاقے میں رہتا ہوں، اس لئے مجھے بخوبی علم ہے کہ منتخب نمائندوں کے بعد عوام کو کتنی بڑی سہولت میسر آئے گی۔ چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان کے لئے یہ ایک بہت بڑا ٹاسک ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ کو دیئے گئے شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخابات کو یقینی بنائیں۔ صرف انتخابات کا انعقاد ہی سب کچھ نہیں، بلکہ شفاف انتخابات کا انعقاد اصل ضرورت ہے۔ دھاندلی کے حوالے سے ہمارے نظام انتخابات کی جو جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور حالیہ دنوں میں سینٹ انتخابات کے موقع پر جو گرد اڑی ہے، اس نے ہمارے کونسلر سے لے کر سینیٹر تک کے انتخاب کو متنازعہ بنا دیا ہے، ایسے میں اب الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ روائتی اقدامات کی بجائے جرات مندانہ اور غیر روائتی اقدامات کے ذریعے انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بنائے۔ بلدیاتی انتخابات ہماری حکومتوں اور الیکشن کمیشن کے لئے ایک بڑا ٹیسٹ کیس ثابت ہو سکتے ہیں، اگر یہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوجاتے ہیں تو پھر یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ آئندہ عام انتخابات بھی دھاندلی سے پاک ہوں گے۔ گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں، آخر میں اپنی پنجابی غزل کا ایک شعر جو حسب حال بھی ہے: اِک چنگیر تے کھاون والے بہتے نیں کوٹھا اِک تے ڈھاون والے بُہتے نیں