گھر کا بھیدی

گھر کا بھیدی
 گھر کا بھیدی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی کے سابق ناظم مصطفی کمال اچانک دبئی سے کراچی پہنچے تو اُن کے ساتھ انیس قائم خانی بھی تھے۔ تین سال بعد ایم کیو ایم کے دونوں رہنماؤں کی پاکستان میں اس طرح ہونے والی اچانک انٹری کو دبنگ انٹری کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے کراچی آمد کے صرف چند گھنٹے بعد ہی ڈیفنس میں واقع کرائے کے ایک گھر میں تہلکہ خیز نیوز کانفرنس بھی کر ڈالی جو مصطفےٰ کمال کے ایم کیو ایم اور قائد تحریک الطاف حسین پر انتہائی سنگین الزامات کے حوالے سے بہت ہی بھرپور نیوز کانفرنس ثابت ہوئی۔ تمام نجی ٹی وی چینلوں نے اس نیوز کانفرنس کو بہت زیادہ اہمیت دی۔اور تین گھنٹے سے زیادہ کا وقت دیا۔ اس سے پہلے ان چینلوں نے کراچی میں مصطفےٰ کمال کی آمد کی خبر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور خوب تشہیر کی۔ نیوز کانفرنس کے آغاز تک تمام چینلوں نے یہ ہوا بنائے رکھی کہ نیوز کانفرنس بہت ہی اہم ہے اور مصطفی کمال بڑے انکشافات کرنے والے ہیں۔قبل از وقت ہی چینلوں پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہر کوئی اپنی دانست کے مطابق تبصرے کرنے لگا۔ تجزیے پیش کئے جانے لگے۔ چینلوں پر معمول کی تمام نشریات روک دی گئیں ، صر ف اس نیوز کانفرنس کا ہی ذکر ہو رہا تھا۔میڈیا ہی نہیں مُلک کا ہر باسی اس انتظار میں تھا کب یہ نیوز کانفرنس ہوتی ہے اور مصطفےٰ کمال اس میں کیا انکشافات کرتے ہیں؟


بالآخر وہ گھڑی آن پہنچی۔ مصطفی کمال، انیس قائم خانی کے ساتھ میڈیا کے نمائندوں سے ایسی باتیں کر رہے تھے، جو اس سے پہلے کراچی میں بیٹھ کر کسی نے اس طرح الطاف حسین کے بارے میں نہیں کی تھیں۔ایک طویل چارج شیٹ تھی جو مصطفی کمال نے میڈیا اور قوم کے سامنے پیش کی۔ محور صرف الطاف حسین تھے، جن کے خلاف زبان کھولنے کی کوئی اس طرح جرأت نہیں کرتا تھا، ہاں ایک بار الطاف حسین کے بارے میں اس طرح کی زبان ضرور استعمال کی گئی تھی جو سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے کی تھی۔ ایسی زبان استعمال کر کے وہ بھی دبنگ بن گئے۔ ذوالفقار مرزا اتنی جرأت سے بولے کہ سب حیران رہ گئے۔ کراچی اور سندھ ہی نہیں پورا پاکستان بھی حیران و ششدر رہ گیا۔ اس کی سزا بھی مرزا صاحب نے بھگتی اور الطاف حسین کے دباؤ پر آصف علی زرداری نے اپنے اس دیرینہ دوست کو صوبائی وزارت داخلہ سے چلتا کیا۔ وہ وزارت سے ہی نہیں گئے، پارٹی رکنیت سے بھی فارغ ہو گئے، تاہم الطاف حسین کے خلاف دئیے جانے والے اپنے سخت ترین بیانات کے زور پر خود کو منوا گئے کہ وہ واقعی ایک دبنگ شخص ہیں۔ نبیل گبول بھی اگرچہ ایم کیو ایم کو داغِ مفارقت دے کر اس کے خلاف کافی کچھ بولے، لیکن سہمے اور ڈرے انداز میں۔ یہ بولنا ایم کیو ایم کے لئے اتنا پریشان کن نہیں تھا کہ جتنا اب بنا ہے۔ مصطفی کمال گھر کے بھیدی ہیں، اس لئے اُن کی بات اور الزامات کو زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ اُسے ایک سچ کے طور پر مانا جا رہا ہے اور تسلیم کیا جا رہا ہے۔


نبیل گبول شاید اس لئے زیادہ کچھ نہیں بولے کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جو قائد سے غداری کرتا ہے، وہ جی نہیں سکتا، موت کا حق دار ہوتا ہے، لیکن مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے تو حد کر دی، اس قدر بولے اور الطاف حسین پر الزامات کی وہ بارش کی کہ ایم کیو ایم کی صفوں میں ابھی تک بھونچال کی سی کیفیت ہے اور وہ لرزہ براندام ہے کہ یہ کیا ہو گیا۔ ایم کیو ایم اور کراچی پر الطاف حسین کی گرفت کمزور پڑتی نظر آ رہی ہے۔ لندن اور کراچی کی رابطہ کمیٹیاں سرجوڑ کر بیٹھی ہوئی ہیں جو ہوا، ایم کیو ایم کو ایسی امید نہیں تھی۔مصطفےٰ کمال کا ایم کیو ایم سے پرانا تعلق ہے۔ اُس وقت سے، جب الطاف حسین خود نائن زیرو پر بیٹھتے تھے۔ مصطفی کمال ابھی نوجوان تھے کہ انہیں نائن زیرو پر ٹیلی فون آپریٹر کی ڈیوٹی سونپی گئی۔ بالآخر ایک دن پارٹی نے انہیں ٹیلی فون آپریٹر سے ایک سیاسی کارکن بنا دیا۔ وہ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن جیت کر سندھ اسمبلی جا پہنچے۔ بعد ازاں ڈسٹرکٹ ناظم بنے۔ شہرت پائی ، ممبر سینٹ بھی رہے۔ اس حیثیت سے چھ ماہ ہی گزارے تھے کہ استعفا دے کر اچانک دبئی چلے گئے۔ جہاں ایک ادارے میں ملازمت اختیار کر لی۔ تین سال تک سیاست اور اپنی جماعت سے مکمل کنارہ کشی اختیار کئے رکھی۔ 3مارچ کو لوٹے تو ایم کیو ایم کے لئے دھماکہ ثابت ہوئے۔


مصطفی کمال نے الطاف حسین کے خلاف جو چارج شیٹ پیش کی، اُس میں لگائے جانے والے الزامات سنگین ضرور ہیں، مگر نئے نہیں۔ ’’را‘‘ سے فنڈنگ، صولت مرز ا سے اجمل پہاڑی تک قتل و غارت کے قصے پہلے بھی زبانِ زد عام رہے۔ مصطفی کمال نے توانہیں صرف دہرایا ہے۔ اضافہ یہ کیا کہ الطاف حسین دن رات شراب کے نشے میں دھت رہتے ہیں، نشے کی حالت میں ہی پارٹی ورکرز سے کراچی رابطہ کمیٹی کے ارکان کی اس طرح تذلیل کراتے ہیں کہ پارٹی ورکر انہیں جوتیاں تک مارتے ہیں۔مصطفی کمال نے نیوز کانفرنس میں رحمن ملک کی بھی بات کی اور یہ کہہ کر نئی بحث چھیڑ دی کہ رحمن ملک کو بحیثیت وزیر داخلہ معلوم تھا کہ ایم کیو ایم کو ’’را‘‘ سے فنڈنگ ہوتی ہے۔ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے اسی روز مصطفی کمال کی نیوز کانفرنس کے جواب میں نائن زیرو پر جوابی پریس کانفرنس کی، جس میں فاروق ستار اور عامر خان نے مصطفی کمال اور انیس قائم خانی پر جوابی وار کئے۔ اس سے قبل لندن سے ایم کیو ایم کے کنوینر ندیم نصرت بھی اس پریس کانفرنس کا حصّہ بنے۔ میڈیا کے نمائندوں سے ٹیلی فونک گفتگو کی۔


اس جوابی پریس کانفرنس کا مقصد مصطفےٰ کمال کے الزامات سے قائم ہونے والے تاثر کو زائل کرنا تھا، لیکن ندیم نصرت سمیت فاروق ستار اور عامر خاں کسی بھی طرح یہ ثابت نہ کر سکے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے ایم کیو ایم کا کوئی تعلق نہیں اور وہ اس سے کوئی فنڈنگ نہیں لیتی۔ تینوں رہنما اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ آئیں بائیں شائیں ہوتی،رہی لیکن یہ لوگ اپنا کیس صحیح طور پر پیش نہ کر سکے۔ ’’را‘‘ سے فنڈنگ کے الزامات کوئی نئے نہیں۔ صولت مرزا سمیت دیگر ذرائع سے بھی ایسی باتیں سامنے آئیں، جن کے جواب میں ایم کیو ایم نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ الزامات نئے نہیں۔ وہ کبھی بھی ان الزامات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوئی، لیکن ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ ’’را‘‘ سے فنڈنگ کے دستاویزی ثبوت اسکاٹ لینڈ یارڈ کے پاس موجود ہیں۔ بات ایسی ہی ہے اور ’’را‘‘ سے فنڈنگ کے دستاویزی ثبوت اسکاٹ لینڈ یارڈ کے پاس موجود ہیں تو اس حوالے سے حکومت پاکستان کی خاموشی بڑی معنی خیز دکھائی دیتی ہے۔ ایسی سیاسی جماعت یا تنظیم جس پر دشمن مُلک کی ایجنسی سے فنڈ لینے کا الزام عائد ہوتا ہو تو پاکستانی حکومت اور ایجنسیوں کا فرض ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کرے۔ایک دشمن مُلک کی خفیہ ایجنسی سے ایم کیو ایم کا رابطہ ہمارے لئے کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، یہ سوچ کر ہی پسینہ آ جاتا ہے، فکر مندی بڑھ جاتی ہے، حکومت خود کئی بار کہہ چکی ہے کہ مُلک میں دہشت گردی کے واقعات میں غیر ملکی ہاتھ ہے، اس لئے حکومت کو ایک لمحے کی بھی تاخیر کئے بغیر تمام معاملے کی اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات کرنی چاہئے تاکہ مُلک دشمن بے نقاب ہو سکیں۔

مزید :

کالم -