پنشنر ہمدردی کے مستحق ہیں
میاں محمد شریف صاحب کے صاحبزادوں نواز شریف اور شہباز شریف سے میرا پہلا تعارف جناب مجید نظامی نے اس وقت کرایا، جب مَیں روزنامہ نوائے وقت میں کام کرتا تھا۔ اس کی تفصیل یہاں ضروری نہیں، لیکن جب مَیں سرکاری ملازمت میں آیا تو تب بھی کافی عرصے تک بطور DGPR صوبے میں اور وفاق میں براہ راست میاں نواز شریف کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیں۔ آج صرف اس بات پر قلم اٹھایا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جن ملازمین نے بھی رشوت نہیں لی، پلاٹ نہیں لئے، اپنے بیٹے، دوستوں کے بیٹے یا بھتیجے کو پیسے پکڑ کر بھرتی بھی نہیں کرایا وہ لوگ کم از کم وقت پر پنشن کے تو مستحق ہیں؟ (میرے دو بیٹے آج شکوہ کرتے ہیں)۔
آج کی بات کر رہا ہوں۔ جس بینک میں حکومت میری پنشن بھیج رہی ہے اس کی حالت یہ ہے کہ ہرماہ جس روز پنشن ملنا ہوتی ہے ( یعنی کبھی پہلی تاریخ، کبھی دوسری، کبھی تیسری اور کبھی چوتھی) کیونکہ بعض اوقات چھٹیوں کی وجہ سے ایک، دو اور تین تاریخوں کو بینک بند ہوتے ہیں۔ اب تقریباً یہ ایک چلن ہی ہوگیا ہے کہ ایسے تمام بینک جو پنشن دینے کے اہل ہیں، وہاں ان کا کمپیوٹر سسٹم خراب ہوتا ہے اور وہ گھنٹوں میں بھی ٹھیک نہیں ہو پاتا۔ سوال یہ ہے کہ یہ سسٹم باقی دنوں میں کیسے ٹھیک رہتا ہے۔ صرف پنشن والے روز ہی اس میں خرابی کیوں ہوتی ہے؟ کون ، کب اس کی تحقیق کرے گا ۔1948ء میں پیدا ہوئے میاں نواز شریف ان شا ء اللہ آنے والے 25دسمبر کو 69سال کے ہو جائیں گے ، یعنی ایک بات تو طے ہے کہ سرکاری ملازمت کی 60سال والی حد وہ پار کر چکے ہیں اور مَیں بہت آرام سے انہیں ریٹائر عمر کا ایک رہنما کہہ سکتا ہوں۔آج ہو یہ رہا ہے کہ ابھی چند ماہ قبل سرکاری ملازمین کو دس ہزار سے لے کر پچاس ہزارماہانہ تک کی نئی مراعات دی گئی ہیں ، لیکن کیا ہمارے وزیر اعظم نے اپنے دیگر ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے لئے بھی کسی ریلیف کا اعلان کیا ہے،ہرگز نہیں، ہم جیسے کرایہ پر رہنے والے سرکاری ملازمین کے لئے اگر وہ کچھ کر بھی دیتے تو کیا رمضان شوگر مل ہماری ہو جاتی؟ ایسا ہرگز نہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ہم بوڑھے لوگ ان کے نوجوان میڈیا منیجر صاحبان کو گوارا نہیں ہیں۔ ہمارے بارے میں تعزیتی پیغام شاید انہوں نے تیار کروا رکھے ہوں، لیکن شعیب بن عزیز، رفیع وغیرہ اور مریم بی بی کے میڈیا سیل سمیت انہیں شاید اس بات کا علم ہی نہیں کہ جس میاں نواز شریف پر خدا کی ذات ہمیشہ مہربان رہی ہے، وہ پاکستان کے (اب) تیس کروڑ عوام کے ساتھ بھی مہربان ہے۔ ہوسکے تو یہ میڈیا منیجر صاحبان خود اپنے بارے میں سوچیں، مجھے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایک میڈیا سیل چلانے کا اتفاق ہوا ہے، صنعت کار یا تاجر ہو سکتا ہے اب اپنا چلن بدل چکے ہوں، لیکن ارب پتی اور کروڑ پتی عموماً ہمارے ملک میں ایسے ہیں جو سرکاری اختیارات میں بھی کنجوسی کرتے ہیں، مگر صرف اپنے ملازمین کے لئے۔۔۔ اللہ پاک کی قسم کھا کر آج لکھ رہا ہوں کہ اگر کسی تاجر یا صنعت کار کا میڈیا مینجر دس برس میں بھی اپنی تنخواہ ہر سال دس فیصد بڑھوانے میں کامیاب ہوا ہے تو میرے اس کالم کے جواب میں جماعت اسلامی کے میڈیا سیل سے جواب دلوادے، ( ہو سکتا ہے، مسلم لیگ قائد اعظم والے اول آجائیں) ۔
اصل معاملہ کی طرف آتا ہوں کہ کیا ہمارے ملک میں وفاقی وزارت خزانہ کے PAY AND PENSIONکے چیئرمین ان معالات سے واقف نہیں کہ محض ایک روز کے سود کی رقم کے لئے اب نیشنل بینک جیسے سرکاری بینک بھی پنشن کے پہلے روز کئی کئی گھنٹے اپنا کمپیوٹر سسٹم بند رکھتے ہیں۔ گواہ خودمیں ہوں۔ملزم بینک کے سربراہ ہیں، کوئی سنے نہ سنے اللہ توسنتا ہی ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ اللہ کے پاس ابھی جانا باقی ہے۔ یہاں توکوئی نہیں سنتا۔ نیشنل بینک کے سربراہ خود شاید ہماری پنشن سے تھوڑا بہت زیادہ معاوضہ لیتے ہوں، لیکن کتنی شرم کی بات ہے کہ اپنی عینک کے نیچے انہیں یہ بات دکھائی ہی نہیں دیتی کہ وہ یہ تک معلوم کرنے میں ناکام ہیں کہ صرف پنشن کے روز ہی ان کے اپنے بینک کا کمپیوٹر سسٹم کیوں خراب ہوتا ہے، کیا وہ اپنی تنخواہ نہیں لیتے یا انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں۔ اخبار تو روز لکھتے رہتے ہیں، چینل تو روز شور مچاتے رہتے ہیں۔ نواز شریف ریٹائر ہوں گے، تو تب اگر میری زندگی باقی رہی تو لاٹھی ٹیک کر ضرور ان سے شکوہ کرنے جاؤں گا؟یاد رہے کہ پنشن گزارہ کے لئے ہوتی ہے۔ اس پر دنیا بھر میں ٹیکس نہیں، لیکن پاکستان میں ہے۔(پنشن کے سلسلے میں یہ آپ بیتی ہے)فرق صرف اتنا ہے کہ جناب رفیق تارڑ یا ہمارے مظفر گڑھی دوست جناب مصطفی کھر کی پنشن اب ایک کروڑ روپے سے بڑھ گئی ہے، لہٰذا ایسے لوگوں کو کسی قسم کی فکر ہی نہیں کہ اگروقت پر نہ بھی ملے تو ان کا بینک بیلنس ہوتا ہے۔
جہاں تک عام پنشنرز کا تعلق ہے تو یہ حکومت کی طرف سے پہلے ہی ’’گزارہ الا ؤنس‘‘ ہے، لہٰذا انہیں گھر کا کرایہ ، بجلی ، گیس اور پانی کابل سب ادا کرنا ہوتا ہے۔ کہاں ہیں ہمارے PAY AND PENSIONکے محکمہ والے، وزارت خزانہ والے یہ کام اب اپنے ذمہ لیں۔ چیئرمین سے استعفا لیں،سب مراعات ان کی بند کریں، وہ پنشن لینے والوں کے لئے کیا کررہے ہیں؟ سرکاری ملازمین کے پاس گاڑیاں بھی ہیں۔ملازم بھی ہیں، رہنے کے لئے گھر ہیں، انہیں تو وہ مزید مراعات دے رہے ہیں؟کالم ختم ہونے کے قریب تھا کہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی ایک ریٹائرڈ ہیڈ مسٹرس میڈم کا فون آیا کہ اب جب سے میٹروپولیٹن کارپوریشن بحال ہوئی ہے، وہاں کی ریٹائرڈ مخلوق کو اس مہینے ابھی تک پنشن نہیں ملی۔ عذر یہ بتایا جارہا ہے کہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے فنڈز ٹرانسفر نہیں کئے، حالانکہ اس سلسلے میں عملے کے ٹاؤن ہال سے واپس محکمہ خزانہ تبدیل ہو جانے والے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ افسر شاہد صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ تو جون تک فنڈز وہاں چھوڑ کر آئے ہیں تاکہ ریٹائرڈ ملازمین کو باقاعدگی کے ساتھ پنشن ملتی رہے ۔اس سے قبل سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا نظام اتنا اچھا تھا کہ کبھی پنشن کے لیٹ ہو جانے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ آخر اب کون اس مسئلے کو حل کرے گا؟ لارڈ میئر کرنل(ر) مبشر کو اگر کبھی فرصت ہو تو وہ ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کے بروقت دیئے جانے کی یقین دہائی کرائیں، ورنہ کوئی بعید نہیں کہ ان کے خلاف پہلا جلوس ریٹائرڈ ملازمین کی یونین والے یا اساتذہ کی یونین کے کارکن نکالیں۔یونین لیڈروں کو ہمیشہ اپنے کھابوں کی فکر تو رہتی ہے، اس طرف بھی اگر فرض سمجھ کر تھوڑی سی توجہ فرمالیں تو کچھ نہیں بگڑے گا ، بلکہ شاید کرنل(ر) مبشر کے سامنے ان کے نمبر بھی بن جائیں، ممکن ہو تو ڈاکٹر ندیم الحسن گیلانی ذاتی طور پر اس ضمن میں توجہ کریں اور متعلقہ اعلیٰ حکام کو توجہ دلوائیں۔