اکتیسویں قسط۔۔۔ سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان
حقیقت بھی یہی ہے۔حضرت برقؒ فرض عبادات کو مقدم سمجھتے اور طریقت کو کاروباربنانے سے گریز کرتے۔ایک ولی اللہ کی اصل پہچان بھی اسکی اسی استقامت سے ہوجاتی ہے۔آپ کی اسی استقامت کی وجہ سے قادر مطلق نے آپ سے بہت سے حجابات اٹھا دئیے تھے اور اپنے خاص بندوں میں شمار کیا تھا۔حضرت برق ؒ کے صاحبزادے پیر سیدمحمد طاہر شاہ ابرار نوشاہی برقی کا کہنا ہے کہ والد گرامی متوکل اور صاحب تصرف انسان تھے ۔قناعت اور رضاالٰہی میں ہمیشہ خوش رہتے تھے۔پیر سیدمحمد طاہر شاہ ابرار نوشاہی برقی بھی برطانیہ میں ہی مقیم ہیں اور گاہے گاہے ڈوگہ شریف آتے اور دربار شریف کے تعمیراتی کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔انکے بقول درباربرقؒ کے لئے جگہ بھی انہوں نے ہی خریدی ہے اور وہاں مسجد بھی بنا رہے ہیں بلکہ اب اس بات کا عزم بھی رکھتے ہیں کہ وہ مستقلاً برطانیہ سے ڈوگہ شریف میں قیام کرکے اپنے والد گرامی کے مشن کو جاری وساری رکھیں گے۔آج کل وہ حضرت برقؒ کی تصانیف کی تدوین واشاعت کا کام بھی کررہے ہیں۔
سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان ۔۔۔تیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پیر سیدمحمد طاہر شاہ ابرار نوشاہی برقی کو اللہ کریم نے بے حد سُریلی آواز عطا کی ہے۔انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضرت برقؒ ان سے کلام سنا کرتے تھے اور اکثر محافل میں ان کی سُریلی میٹھی اور دلوں پر اثر کرنیوالی آواز کو سن کر محویت میں چلے جاتے تھے۔پیر سیدمحمد طاہر شاہ ابرار نوشاہی برقی کا کہنا ہے ’’والد گرامی فرمایا کرتے تھے کہ اصل طریقت ہمہ وقت خلق خدا کی خدمت کرنا ہے،اسکے بغیر فقیری بھی نہیں ملتی تھی۔ہم انکی اولاد ہوکر بھی اپنے ہاتھوں سے مریدین کو کھانا کھلاتے اور انکی خدمت پر مامور ہوتے تھے،ہم میں صاحبزادوں والی خوبو نہیں تھی ۔پیر صاحب کا حکم ہوتا تھا کہ مہمان آئیں تو انکے ہاتھ بھی خود دھلایا کرو،میں آپ کے حکم کے مطابق مہمانوں اور مریدین کے لئے روٹیاں لاتااور انہیں پانی بھی پلاتا تھا۔جب میں نے کچھ ہوش سنبھالا اس وقت بھائی تصوّرباہر کے ملک جابسے تھے ،بھائی ظاہر شاہ چک سواری ہوتے تھے،بھائی رضا کالج جاتے تھے،پھر جب بڑا ہوا تو اس دوران بڑے بھائی باہر کے ملک چلے گئے تھے لہذا مجھے پیر صاحب کے ساتھ رہنے اور خدمت کرنے کا زیادہ موقع ملا۔میں اپنے والد گرامی کے مزاج کو سمجھتا تھامگر آپ سے کبھی کوئی سوال کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔قبلہ والدکے بعد ہمارا نظام بہت خراب ہوا،بھائی صفدر کی وفات انکی حیات میں ہوگئی تھی،آپؒ انہیں بہت پسند کرتے تھے ۔ آپ کی خواہش تھی کہ انکے بعد بھائی صفدر ہی سارا نظام چلائیں گے لیکن بھائی صاحب کی وفات کے بعد جب آپ کا وصال ہوا تو قبلہ والد ایک کورا کاغذ چھوڑ گئے تھے کہ انکے بعد کس کو جانشین بنایا جائے۔تاہم انکے مشن کو جاری رکھنے کے لئے انکی یہ ہدایت بڑی واضع تھی کہ میرا اصل وارث وہی ہوگا جو میری ہدایات پر عمل کرے گا۔آپ کی وصیتوں، کتب اور صوفیانہ کلام میں آپ کی ہدایات عام ملتی ہیں ،جو شریعت طریقت راہ پر چلے گا اور مخلوق خدا کی خدمت کے لئے ہمہ وقت حاضر ہوگا وہی قبلہ پیر صاحب اور حضرت نوشہ گنج بخشؒ کی نسبت کا حق ادا کرسکتا ہے۔مخلوق خدا اور طالبان معرفت اپنے پیرومرشد سے بہت سی توقعات رکھتے ہیں لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ایک صاحبزادے کو اپنے مرشد کریم جو کہ اسکے والد گرامی بھی ہوں تو ایک مثالی نمونہ بن کر اپنے بزرگوں کی روشن کی ہوئی شمع کو جلائے رکھنا چاہئے۔بالخصوص ایک ایسے مرشد کریم کی میراث کو لیکر چلنا تو بہت حساس معاملہ ہوتا ہے جسے اللہ کریم نے اپنے فضل سے نوازا ہو۔ہمارے والد گرامی اپنے دور کے عظیم ولی تھے ۔وہ عام لوگوں کی طرح ہمارے درمیان چلتے پھرتے تھے لیکن ان کا تصرف یہاں وہاں قائم ہوتا تھا۔اللہ کے ولی کی شان بہت بلند ہوتی ہے اور اللہ کریم اپنے محبوب کے عاشقوں کی لاج رکھنے والا ہے۔ایک واقعہ آپ کو سناتا ہوں ،اندازہ کر لیجئے کہ اللہ اپنے اولیا کی لاج کیسے رکھتا ہے۔ایک بار حافظ انور صاحب نے قبلہ والد صاحب سے کہا ’’حضور میں سوچتا ہوں اور حیران ہوجاتا ہوں ‘‘
آپ نے حافظ صاحب کی طرف دیکھا اور سوال کیا ’’کیا سوچتے ہیں آپ‘‘
’’حضور میں یہ سوچتا ہوں کہ اتنی بڑی کائنات ہے،اس کا نظام کتنا بڑا ہے ۔میں حیران ہوں کہ یہ سب کیسے لوح محفوظ پر محفوظ ہوسکتا ہے جبکہ ہزاروں لاکھوں سے سال سے یہ سارا نظام موجود ہے‘‘
آپ نے حافظ انور سے کہا’’حافظ صاحب آپ کھانا کھائیں،آرام کریں اور سوجائیں ،صبح فجر کے بعد اس موضوع پر بات کریں گے‘‘نماز فجر کے بعدحافظ انور صاحب جھٹ سے آپ کے پاس پہنچے اور عرض کی’’حضور مجھے بیعت کرلیں‘‘
پیر صاحب نے مسکرا کر کہا’’اچھا مگر اتنی جلدی کیا ہے،ابھی تو آپ کا مسئلہ باقی ہے‘‘
’’حضور اب کس بات کا شک رہ گیا ہے،میرا مسئلہ بھی حل ہوگیا ہے‘‘حافظ انور صاحب نے کہا تو آپ نے استفسار کیا۔حافظ صاحب بولے’’ جو سوال مجھے پریشان اور حیران کرتا تھا اسکا عقدہ کھل گیا ہے اور اب میں نہ پریشان ہوں نہ حیران ۔کیونکہ میں آج رات جب سویا تو کیا دیکھتا ہوں میرے سامنے ایک بہت بڑی سی سکرین چل رہی ہے اور اس پر کسی ایک چیز کا حساب درج ہے ۔میں صبح سے رات گئے تک اس سکرین پر موجود ایک نقطہ کی عبارت نہیں پڑھ پایا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی اور مجھے ادراک ہوگیا ہے کہ اگر ایک نقطہ کے اندر اتنی تفصیلات درج ہوسکتی ہیں تو بڑی سے سکرین پر لکھی عبارتوں کو پڑھنے کے لئے کتنا وقت چاہئیے ہوگا‘‘ حافظ انورجو شیخ التفسیر تھے اور دولت نگر کا مدرسہ انکی نگرانی میں ہی چلا کرتا تھا،وہ کئی صاحبزادوں کے معلم بھی تھے۔وہ کہا کرتے تھے کہ لوح محفوظ کا میرامسئلہ جو کبھی کتابوں سے حل نہ ہوسکا تھا وہ پیر صاحب نے ایک ہی رات میں حل کرادیا اورمیں قبلہ پیر صاحب کے خوارق وکرامات انکے مقام ولایت کا قائل ہوگیا تھا۔