پاک بھارت امن مذاکرات اور مسئلہ کشمیر
پاک فضائیہ کے سربراہ ائر چیف مارشل مجاہد انور نے کہا ہے کہ مشکل وقت ابھی ختم نہیں ہوا،اِس لئے دشمن کو جواب دینے کے لئے تیار رہنا ہو گا۔
بگڑتی صورتحال پر نیشنل سیکورٹی کونسل کا اجلاس ہوا۔ عوامی نمائندوں اور دیگر ریاستی اداروں کے نمائندوں کی ان کیمرہ بریفنگ ہوئی۔ پھر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی۔
ان کو جنگی جنون سے گریزکرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے تاریخی حوالے دیئے کہ ’’جنگیں تخمینے کی غلطی‘‘ کے باعث شروع ہوتی ہیں۔ غلط اندازے جنگ کی طرف لے جاتے ہیں دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ خطرناک اور مکمل تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی میں جنگ کا سوچنا تباہ کن ہو گا۔حقیقت بھی یہی ہے۔
پاکستان نے قیدی پائلٹ واپس کر کے دنیا کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان ایک صلح جو ملک ہے اور بھارتی سیکیورٹی فورسز کے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے باعث پلوامہ کا وقوعہ رونما ہوا۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔
پاک بھارت جنگ ہوگی یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کاتب تقدیر کے سوا شاید ہی کسی کو پتہ ہو۔ لیکن فریقین جنگ کے لئے تیار ہیں اور یہ تیاری ایک مسلسل عمل ہے جو 1947ء سے جاری ہے۔
ہندو نے مسلمان کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ ہندوستان میں جو بھی آیا یہاں ہندو ازم کا شکار ہوگیا۔ ہندو نے یہاں آنے والے ہر مذہب، کلچر اور قوم کو اپنے اندر ضم کر لیا۔ یہاں وارد ہونے والی کوئی بھی قوم اور نسل اپنا تشخص برقرار نہیں رکھ سکی۔ یہ صرف عرب مسلمان تھے جو یہاں آئے اور چھا گئے۔انہوں نے ضم ہو جانے کی بجائے یہاں ایک قوم تخلیق کی۔
آج وہاں 300ملین مسلمان بستے ہیں یہ عربوں کی اولاد نہیں ہیں،بلکہ یہاں کے باسی ہیں۔ ہندوستانی اقوام سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے دین اسلام کو قبول کیا تھا۔ہندو معاشرے سے ایک اسلامی معاشرہ نکلا تھا ۔یہ پاکستان بھی ایسی ہی ایک تخلیق ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندو نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ہے وہ مسلمانوں کو ہندوستان میں ختم کرنے، ان کی نسل کشی پر تلا ہوا ہے وہ پاکستان کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔ گزرے 70سالوں کے دوران اس نے کبھی بھی کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا، جب وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے کمربستہ نہ ہوا ہو۔ تقسیم ہند کے طے شدہ اور قبول کردہ فارمولے کے تحت کشمیر پاکستان کا حصہ بننے جا رہا تھا کانگریسی ہندوؤں نے سازش کے ذریعے اس پر قبضہ کرنے کی کاوشیں کیں۔
جنگ کشمیر 1948ء اسی سازشی ذہن کی پیداوار تھی۔ اس طرح مسئلہ کشمیر پیدا ہوا۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان خونی تصادم کا آغاز ہوا۔ پاکستان کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں جب ہندوستان کو شکست نظر آنے لگی تو وہ واویلا کرتا ہوا اقوام متحدہ میں چلا گیا۔
جہاں یہ فیصلہ ہوا کہ کشمیریوں کو استصواب رائے کے ذریعے یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے گا کہ وہ کس ملک کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ پاکستان یا ہندوستان۔ یعنی کشمیری پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ ہندوستان نے اقوام عالم کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دے گا۔ کشمیری اپنے اس حق کے حصول کے لئے گزرے 70سالوں سے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ہندو سرکار ان کی اس خواہش بلکہ حق کے حصول کی آواز کو بزور دبانے کی راہ پرگامزن ہے۔ یہی پاک بھارت جنگوں کا بنیادی نقطہ رہا ہے۔
ہندوستان گو بڑا ملک ہے لیکن ہم بھی کم نہیں ہیں۔ ہم بھی ایٹمی ملک ہیں ہمارے پاس 100-130 ایٹمی ہتھیار ہیں۔ بھارت کے پاس 90-110ہیں۔ ہمارے پاس 394حملہ کرنے والے طیارے ہیں۔
جبکہ ہندوستان کے پاس 809ہیں۔ ہمارے پاس 52حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹر ہیں،جبکہ ہندوستان کے پاس 19ہیں۔ ہمارے پاس 2924جنگی ٹینک ہیں جبکہ انڈیا کے پاس6464 ہیں۔ ہمارے پاس 304جنگی جہاز ہیں،جبکہ ہندوستان کے پاس 677ہیں۔ ہماری مسلح افواج 6لاکھ 20ہزار ہمہ وقتی نفوس پر مشتمل ہیں،جبکہ ہندوستان کے 13لاکھ 25ہزار فوجی ہیں۔
دونوں ملک 4بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ پانی کی جنگ اس کے علاوہ ہے۔ ہندوستان سازش کے ذریعے 1971ء میں پاکستان کو دو ٹکڑوں میں بھی تقسیم کر چکا ہے۔ ہندوستان کی موجودہ قیادت اس سازش کا برملا اقرار بھی کر چکی ہے۔ لیکن اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی ریاست بن چکا ہے۔ ہم نے 1979ء میں اشتراکی افواج کا سامنا کیا۔
2001ء کے بعد ہم نے افغانستان پر حملہ آور امریکی اتحادی افواج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست کا کردار ادا کیا۔ ہزاروں فوجی و سویلین جوانوں کی قربانی کے ساتھ اس جنگ کو فیصلہ کن بنایا۔ پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے کے امریکی مطالبے،بلکہ درخواست کو اس وقت تک قبولیت نہیں بخشی جب تک امریکہ نے ہندوستان کو اس مسئلے سے نکال باہر کرنے کا پاکستانی مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔
پاکستان نے خطے میں امن وامان قائم کرنے کے لئے طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز تک پہنچا دیا ہے۔طالبان کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان ان امن مذاکرات میں بنیادی و کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
ایک بات عالمی برادری کو بتانے کی ضرورت ہے کہ جب خطے میں کشت و خون کا بازار گرم تھا تو ہندوستان اس کھیل کا اہم کھلاڑی تھا۔ افغانستان میں اس کے14قونصلیٹ آفس پاکستان کے خلاف مصروف عمل تھے۔
آج اگر خطے میں امن و امان کی کاوشیں ہو رہی ہیں تو پاکستان اس کھیل کا اہم کھلاڑی ہے جبکہ ہندوستان آؤٹ ہے۔ دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان امن کا علمبردار ہے جبکہ ہندوستان امن کا دشمن ہے۔ ہندوستان نے پاکستان پر دو ہوائی حملے کرکے خطے کا امن تباہ و برباد کرنے کی کاوشیں کی ہیں جبکہ پاکستان نے صرف اپنے دفاع کا حق استعمال کیا ہے اور ہندوستان کے قیدی پائلٹ کو رہا کرکے ہندوستان کو امن کا پیغام دیا ہے۔
کشمیری تحریک آزادی اپنے جوبن پر ہے ۔ مسئلہ کشمیر خطے میں مسائل کی جڑ ہے۔ پاک بھارت امن مذاکرات مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ بھارت کو عقل کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔