بل کا بینہ کی منظوری کے باوجود پارلیمنٹ نہ بھجوانے پر جواب طلب
اسلام آباد(آئی این پی)اسلام آباد ہائیکورٹ نے بچوں پر تشدد روکنے کے بل پر وزارت قانون سے 12مارچ تک جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے کہا بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست پر فیصلہ اگلی تاریخ پر کر دینگے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ سرعام پھانسی دینے سے معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا، انسانی رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تفصیلات کے مطابق گلوکار اور سماجی کارکن شہزاد رائے کی بچوں کو جسمانی سزا پر پابندی کیلئے درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار شہزاد رائے نے موقف اپنایا کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اسلام بچوں پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا، 97فیصد مسلمانوں کو شرمسار ہونا چاہیے کہ بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا بچوں پر تشدد روکنے کے لیے قانون سازی کا کیا بنا؟ یہ تو انسانی حقوق کا کیس ہے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ وزارت قانون نے کہا ہے کہ یہ وزارت انسانی حقوق کا دائرہ اختیار نہیں بلکہ وزارت داخلہ کا ہے۔اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب بل کی کابینہ نے منظوری دے دی تھی پھر وزارت داخلہ کو تو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ افسر مقرر کیا جائے جو بتائے بل پارلیمنٹ کیوں نہیں بھیجا گیا؟ قانون نہ بھی ہو تو بچوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا جاسکتا، جسمانی سزا دینے کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہونا چاہئے۔عدالت سے استدعا کی گئی کہ بچوں پر تشدد کا بل دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی ہدایت دی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کابینہ بل کی منظوری دے چکی ہے۔ بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔عدالت نے سیکرٹری قانون کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پرعدالت میں پیش ہونے کے لئے نمائندہ مقرر کریں اور بتائیں کہ بل قومی اسمبلی میں کیوں نہیں پیش کیا جا رہا۔درخواست کی مزید سماعت 30مارچ تک ملتوی کر دی۔
بچوں پر تشدد