احتجاج، میچ، ٹریفک جام سے عوام پریشان!

احتجاج، میچ، ٹریفک جام سے عوام پریشان!
احتجاج، میچ، ٹریفک جام سے عوام پریشان!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


یہ ہمارا معمول ہے کہ جس روز صاحبزادہ عاصم چودھری ہمیں دفتر کے لئے لے کر نہ جائے، اس دن ہم سپیڈو بس سے آتے جاتے ہیں۔ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر کے لئے ایک بار بس تبدیل بھی کرنا پڑتی ہے۔ گزشتہ روز ٹرمینل پر صرف ایک بس موجود تھی، اس کے سائن بورڈ بند کرکے کھڑا کر دیا گیاتھا۔ اب انتظار شروع ہوا کہ ملتان روڈ چونگی کی طرف سے بس آئے تو واپسی ہو، تاہم انتظار طویل ہوتا چلا گیا، بس کی آمد نہ ہوئی،حالانکہ اس روٹ پر قریباً 20 بسیں چلتی ہیں اور ہر سات منٹ کے بعد ایک بس روانہ ہو جاتی ہے۔ جب زیادہ تاخیر ہونے لگی تو ہم نے بس کمپنی کے متعلقہ عملے سے رجوع کیا اور ان سے دریافت کیا کہ بسیں کیوں تاخیر کا شکار ہیں؟ تو جواب ملا، وحدت روڈ پر یونیک تعلیمی ادارے کے طلباء احتجاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے دو رویہ سڑک بند کر رکھی ہے اور ٹریفک بند ہو جانے کے باعث بسیں بھی رکی ہوئی ہیں۔ پہلے ہمارا خیال تھا کہ یہ سب پی ایس ایل کے قذافی سٹیڈیم میں ہونے والے کرکٹ میچ کی وجہ سے ہے اور ٹریفک بند رکھنے کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے، تاہم یہ ایک نئی صورت حال تھی۔ ہمیں یاد آیا کہ یونیک اکیڈیمی کے ”باتھ روم“ سے پہلے سال کے ایک طالب علم کی نعش ملی تھی اور یہ احتجاج غالباً اسی حوالے سے ہے، تاہم دکھ ہوا کہ ایک طرف میچ کی وجہ سے ٹریفک بُری طرح جام ہو رہی ہوتی ہے،دوسری طرف اس احتجاج نے پریشانی کھڑی کر دی ہے۔


قذافی سٹیڈیم میں ہونے والے میچ کی سیکیورٹی کے حوالے سے قذافی سٹیڈیم کے اردگرد کے علاقے کو نوگوایریا بنا دیا جاتا ہے اور فیروز پور روڈ جیسی مصروف ترین سڑک کو بھی بند کر دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مسلم ٹاؤن موڑ سے ماڈل ٹاؤن کی طرف جانے والی تمام ٹریفک بھی وحدت روڈ ہی سے گزر کر کلمہ چوک یا جوہر ٹاؤن کی طرف سے ہو کر جاتی ہے۔ یوں قدرتی طور پر اچھرہ سے مسلم ٹاؤن موڑ اور پھر وحدت روڈ پر بوجھ ہو جاتا ہے اور گاڑیاں رینگ رینگ کر چلتی ہیں۔ یہ صورت حال تمام نواحی سڑکوں پر بھی بوجھ کا سبب بنتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ نہ صرف فیروز پور روڈ،بلکہ علامہ اقبال ٹاؤن کے سب راستے،پھر ملتان روڈ بھی ٹریفک کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں، ٹریفک حکام کے مطابق کینال روڈ پر ٹریفک کھلی ہوتی ہے، لیکن ان اوقات میں جب میچ کا وقت ہونے والا ہو، یہاں بھی ٹریفک چیونٹی کی چال چلتی اور اکثر جام رہتی ہے، یوں ایک انتظامی کمزوری کے باعث لاکھوں شہریوں کو پریشانی اٹھانا پڑتی ہے، اس وجہ سے اب پُرجوش شہری بھی کرکٹ بحالی سے ہونے والی خوشی اور اطمینان سے بے زار نظر آنے لگے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انتظامیہ بہتر انتظام کرے، جو اس طرح ممکن ہے کہ ٹیموں کی آمدورفت کے وقت متعلقہ سڑکوں پر ٹریفک کچھ وقفے کے لئے روک لی جائے، پھر بحال کر دی جائے۔ قذافی سٹیڈیم کو جب نوگو ایریا قرار دے کر وہاں دکانیں تک بند کرا لی جاتی ہیں تو پھر فیروزپور روڈ پر ٹریفک بند کرنا ”چہ معنی دارد”…… بہتر یہی ہے کہ قذافی سٹیڈیم کو جانے والے گیٹ سے سٹیڈیم کے اردگرد کو زیادہ محفوظ بنایا جائے اور سڑکوں سے ٹریفک گزرنے دی جائے جن کا مقام کھیل سے بہت فاصلہ ہے۔


بہرحال یہ تو شہریوں کی پریشانی کا حال تھا کہ بتانا پڑا، بات تو وحدت روڈ پر احتجاج سے ٹریفک بند اور بسوں تک کے رکنے کی تھی۔ اللہ اللہ کرکے قریباً سوا گھنٹہ گزر جانے کے بعد کمپنی والوں کو اطلاع ملی اور انہوں نے ٹرمینل پر کھڑی بس کو روانگی کی اجازت دی۔ ڈرائیور نے بس سٹارٹ کرکے مسافروں کو بیٹھنے کی اجازت دی تو ”ایک انار سو بیمار“ والا حساب تھا، چنانچہ مہذب پن ختم اور ”پہلے مَیں“ والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حاجی اجمل پہلے سوار ہوئے تو انہوں نے نشست سنبھال کر ہمارے لئے بھی محفوظ کر لی۔ پھر سفر شروع ہوا اور اچھرہ کے بعد وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ ٹریفک کا دباؤ بہت بڑھ چکا تھا اور بس بھی رُک رُک کر چل رہی تھی، یہ سلسلہ بھیکے والا موڑ تک ایسے ہی رہا اور عام سفر جو 45سے 50منٹ کا ہے، قریباً ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا۔

نوجوان طلباء نے تو اپنے جذبات کا اظہار کر لیا، لیکن ان کے احتجاج نے ہزاروں شہریوں کی جو حالت کی، وہ بیان سے باہر ہے۔ یہ تو اب ہمارے ملک میں کلچر کا حصہ بن چکا کہ احتجاج اس وقت تک موثر نہیں جانا جاتا، جب تک عام لوگوں کو دکھ نہ پہنچایا جائے اورکم از کم سڑک ہی بند کر دی جائے۔ ٹائر جلانا اس کے علاوہ ہے، جس سے ماحول مزید خراب ہوتا ہے کہ پہلے ہی ماحولیاتی آلودگی خطرے کے نشان کو چھو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم کسی مہذب قوم کی طرح برتاؤ نہیں کر سکتے؟ انتظامیہ کب شہریوں کو انسان جانے گی اور کب شہری خود اپنے آپ کو اخلاق کا پابند بنائیں گے؟ یہ بڑا سوال ہے جس کا جواب آنا چاہیے۔ جہاں تک کرکٹ کی بحالی اور میچوں کا سوال ہے تو بدانتظامی کی وجہ سے انتظامیہ شہریوں کو بددل کر رہی ہے اور وہ اپنا قصور جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ ان امو رپر غور ہی بہتر ہو گا کہ ٹریفک جام میں ایمبولینس تک پھنس جاتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -