بھارت،اقوام متحدہ کی پیش قدمی اور دفتر خارجہ
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے حقوق انسانی، چلی نژاد مس مشال باچلے نے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک درخواست جمع کرائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ بین الاقوامی قانون، عالمی اقدار اور مسلمّہ انصاف کی روشنی میں مودی حکومت کے منظور کردہ شہریت کے حالیہ متنازعہ قانون پر نظر ثانی کرے۔ درخواست کا متن میرے سامنے نہیں ہے، لیکن میری محدود سی ذاتی معلومات کے مطابق جدید سیاسیات میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی درخواست ہے۔عالمی برادری، اقوام متحدہ اور اس کے دیگر بین الاقوامی ادارے نہ تو اس طرح کی درخواستیں حکومتوں کو بھیجا کرتے ہیں نہ ہی کسی ملک کی عدالت عظمیٰ کو۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک اچھوتا واقعہ ہے اور اقوام متحدہ کے اپنے ادب آداب سے خود اقوام متحدہ کا انحراف ہے۔ اس کی گہرائی میں جائیں تو اس میں دیگر اقوام عالم، بھارت اور بڑی حد تک پاکستان کے لئے ایک پوشیدہ پیغام موجود ہے۔ یہ پیغام کہ مودی حکومت نے اپنی پارلیمان سے قانون منظور کرا لیا ہے،لہٰذا اس کے ماضی اور حال کے پیش نظر اقوام متحدہ نے بھارتی حکومت کو اس قابل ہی نہیں جانا کہ اس سے رابطہ کیا جائے۔ ساتھ ہی اس نے اقوام عالم کو مضمراتی انداز میں سمجھا دیا ہے کہ مودی حکومت سے کسی خیر کی کوئی توقع نہیں ہے۔ بس ذرا تفکر، ذرا تدبر اور ذرابصیرت کے ساتھ پاکستان نے اگر اپنی سفارتی چالیں چلنا شروع کر دیں تو اتنا کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے جو کشمیریوں کی جہادی سرگرمیوں، روایتی جنگ یا پلوامہ جیسے الزام کے بغیر ہمیں بہت کچھ مل سکتا ہے۔
اس وقت عالمی منظر کچھ ایسا ہے کہ ماسوائے چند بڑی عالمی طاقتوں کے، دیگر تمام ممالک کے لئے جنگ کے ذریعے کسی ملک کی سرحد تبدیل کرنا ناممکن ہے۔ بھارت میں اس وقت بیس کروڑ مسلمان خوف و ہراس کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ امت مسلمہ کے ان 20 کروڑ اعضاء کی فکر سرحدی تبدیلی کے ذریعے ممکن ہی نہیں، لیکن ان مسلمانوں کے صبر،حوصلے اور ستر سالہ غلامی کے بعد اب لگتا ہے کہ اللہ کریم نے ان سب کی سن لی ہے۔ پاکستان نے افغانستان میں تزویراتی گہرائی کا جو نامعقول نظریہ اپنایا تھا، اس جلائی ہوئی آگ میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں انگلیاں جلانے پر، اللہ کا شکر ہے، اب اس نظریے سے اس نے رجوع کرلیا ہے۔ گزشتہ بارہ سالوں، یعنی بارہ نام نہاد سہی، لیکن جمہوری سالوں میں پاکستان نے جن گناہوں سے توبہ کرلی ہے،بھارت نے ان حرکتوں کا آغاز کیا ہے،یعنی وہی حرکتیں مودی کے زیر سایہ مسلسل کر کرکے بھارت روز بروز عالمی تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
اس وقت یہ موقع نہیں ہے کہ بھارت کی اس عالمی تنہائی کے ثبوت میں کچھ مثالیں دوں، یہ مثالیں نہایت کثرت سے ذرائع ابلاغ میں مسلسل آرہی ہیں اور قارئین ان سے بخوبی واقف ہیں۔جس تزویراتی گہرائی کے تصور سے پاکستان تائب ہو چکا ہے، بھارت آئے روز وہی کلہاڑی اپنے پاؤں پر مار رہا ہے اور اس کی یہ تزویراتی گہرائی پاکستان کے برعکس خود اس کی اپنی آبادی میں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ شہریت کے اس موجودہ زیر بحث قانون کی منظوری کے ساتھ ہی بنگلہ دیش بھی اب بھارت سے قابل ذکر فاصلے پر چلا گیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس قانون کی منظوری کے ساتھ ہی بنگلہ دیشی وزیر خارجہ نے بھارت کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا تھا۔ آج ہی ایک صاحب نے دلی سے ایک ویڈیو ارسال کی ہے جس میں چند دیگر باتوں کے علاوہ ایک بوڑھا شخص معمولی سا سامان سر پر اٹھائے دلی میں ایک سڑک کے کنارے افسردہ و ملول کھڑا ہے۔ کسی کے پوچھنے پر کہتا ہے: "یہی کچھ بچا ہے، گھر جلا دیا گیا ہے، گھر کے لوگ مار دیئے گئے ہیں، اب جاؤں تو کہاں جاؤں“؟……یہ ایک مثال ہے۔ قارئین جانتے ہیں, جانتے ہی نہیں،خود بھی دن رات اس طرح کی خبریں ذرائع ابلاغ پر سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں. چنانچہ ان حالات میں ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان کوئی روایتی جنگی کارروائی کیے بغیر وہ ضرب لگائے، جس کی ابتدا اقوام متحدہ نے کردی ہے جو بھارت کے سیاسی نظام کا منہ چڑا کر دی ہے۔
اس موقع پر اگر پاکستان نے اپنی سفارتی چالیں دانشمندی سے چلیں تو بھارت مودی کی جلائی ہوئی آگ میں یقینا جلے گا اور وہاں کے مجبور و مقہور اور پسے ہوئے بھارتی اور کشمیری مسلمانوں ہی کو نہیں، بلکہ دیگر غلام اقوام کو بھی آزادی حاصل ہوگی۔ بھارتی سپریم کورٹ کو اقوام متحدہ کی زیرنظر درخواست نے واضح کر دیا ہے کہ اس کی نظر میں مودی کی حکومت کا کیا مقام ہے، اُدھر دلی کے حالیہ فسادات، بھارت میں 19 لاکھ بہاریوں کی شہریت کا خودساختہ مسئلہ، اپنے ہی لاکھوں شہریوں کے لئے عذاب انگیز زندگی کی شروعات اور سب سے بڑھ کر کشمیر کے لگ بھگ ایک کروڑ شہریوں کو عملًا قید کرنے کا عمل ایسا نہیں ہے، جسے اس اکیسویں صدی میں عالمی برادری ٹھنڈے پیٹوں ہضم کر لے۔ بھا رت کے ناگفتہ بہ حالات صاف ظاہر کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان دونوں ہندوستانی پناہ گزینوں کے کسی بڑے ریلے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بہار اور مغربی بنگال میں بنگلہ دیشی نژاد شہر ی لاکھوں میں ہیں اور وہ موجودہ بھارتی ایذا رسانی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ پناہ گزینی کی متوقع اذیت بنگلہ دیش کے لئے بھی ایک خبر بننے والی ہے۔ مسئلہ چونکہ ہم دونوں ملکوں کا مشترکہ ہے، اس لئے اس باب میں بنگلہ دیش کو پاکستان کا ہم نوا بننے میں کوئی تامل نہیں ہوگا۔ بنگلہ دیش کی ابھرتی ہوئی معیشت بھارت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ بھارت کسی بھی وقت بنگالی اور بہاری آبادی کا ایک بڑا ریلا بنگلہ دیش کی طرف دھکیل کر اس کی معیشت کو اتھل پتھل کر سکتا ہے۔ بنگلہ دیش ابھی تک برمی پناہ گزینوں سے نمٹنے میں ہی پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکا۔ اُدھر کشمیر میں بھارتی حکومت نے تمام کشمیری رہنماؤں کو باہم متحد کرکے وہ کام کر دیا ہے جو اکیلا پاکستان 70 سالوں میں بھی نہیں کر سکا تھا،چنانچہ کشمیر میں مزید بھارتی مہم جوئی بظاہر نوشتہء دیوار ہے۔ اس بھارتی عمل کا براہ راست نشانہ پاکستان ہی بنے گا۔
مستقبل بینی کا تقاضا ہے کہ پاکستان ان تمام مواقع اور مثالوں کی روشنی میں اقوام متحدہ سے ناپ تول کر اور خود آگے بڑھ کر سفارت کارانہ انداز میں درخواست کرے کہ آنے والے دنوں میں وہ پناہ گزینی کے مسائل کا شکار ہو سکتا ہے، لہٰذا پیش آمدہ متوقع مسائل کے پیش نظر اقوام متحدہ سلگتے ہوئے بھارت پر نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی مدد کرے۔ اقوام متحدہ کی اس مدد کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں جو سفارت کاری کا موضوع ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے ماہرین اس بارے میں بہت کچھ بتا سکتے ہیں۔ ابھی مَیں نے جن اندھے بھارتی اقدامات کا ذکر کیا ہے، وہ اس مسئلے کا ایک خوش آئند پہلو ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ دیگر مثبت اور خوش آئند باتیں بھی پاکستان کے حق میں موجود ہیں، جنہیں سفارت کاراپنی مہارت سے استعمال کر سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے موجودہ 71 سالہ سیکرٹری جنرل ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں،وہ تین مرتبہ پرتگال کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ وہ اپنے ملک کی اسمبلی کے 28 سال تک مسلسل رکن رہے، تا وقتیکہ وہ دیگر بین الاقوامی ذمہ داریوں میں مصروف ہوگئے۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستانی گوادر پر مسقط کا قبضہ تھا۔ پاکستان نے پُرامن طریقے اور مسقط سے مذاکرات کے ذریعے گوادر کو خرید لیا۔ بھارتی گوا پر اس وقت پرتگال کا قبضہ تھا۔ بھارت نے پاکستان کے برعکس اس وقت کی پرتگال کی اس نوآبادی پر فوج کشی کرکے جبری قبضہ کرلیا……اور قوموں کا حافظہ کمزور نہیں ہوتا۔ بھارتی فوج کشی کا شکار پرتگال بھی ایک لحاظ سے پاکستان کی طرح بھارت کا ڈسا ہوا ہے، جس کے سابق وزیراعظم اپنی اس تاریخ سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ ساڑھے دس سال تک اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین بھی رہ چکے ہیں، اس طرح وہ پناہ گزینی،اس سے متعلق اذیت اور کرب سے بخوبی واقف ہیں۔
دوسری طرف بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے والی مس مشال باچلے بھی نسلی طور پر اسی خاکنائے آئبیرین کے ملک اسپین سے متعلق ہیں، جہاں پرتگال واقع ہے۔ وہ لاطینی امریکی ملک چلی کی صدر رہ چکی ہیں، وہ منجھی ہوئی سیاست دان ہیں۔ چلی اپنے ہاں کے فوجی جرنیلوں،بالخصوص جنرل پنوشے کا اکھاڑہ رہا ہے۔ خود اپنے ملک میں انسانی حقوق کی معنویت سمجھتے ہوئے مس باچلے بھارتی مسلمانوں کے مصائب، لاکھوں کشمیری قیدیوں اور دیگر بھارتی سیاہ کاریوں سے بحسن و خوبی نمٹ سکتی ہیں۔خوش قسمتی سے اس وقت اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم ہیں، جن کی جارحانہ سفارت کاری سفارتی حلقوں میں خوب معروف ہے۔ مَیں اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں کہ سفارت کاری اور بین الاقوامی تعلقات میں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں اور نہ سفارت کاری میں ان کی کوئی اہمیت ہوا کرتی ہے، لیکن ایسی باتیں حکومتوں اور کمپنیوں کے تعلقات میں زیادہ اہم نہیں ہوتیں، اقوام متحدہ کا معاملہ ذرا مختلف ہے، اس کے موجودہ سیکرٹری جنرل، جو سابق پرتگالی وزیراعظم ہیں، اس پرتگال کے وزیراعظم جو بھارتی فوج کشی کا شکار رہ چکا ہو، یقینی بات ہے، وہ بھارتی جارحیت کو ہرگز نہیں بھولے ہوں گے۔
اپنے ہاں ماضی میں دفتر خارجہ کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو کسی جمہوری ملک میں دی جانی چاہیے۔ یہ اکیسویں صدی جنگوں سے ابھی خالی تو نہیں ہوئی، نہ آئندہ کبھی ہوگی، لیکن آج جنگوں سے زیادہ سفارتی کارروائی جنگوں کی قائم مقام سمجھی جاتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے تمام ریاستی ادارے مل کر دفترخارجہ پر ذرا زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے بھارت سے روایتی جنگ لڑنے کی بجائے اسے سفارتی میدان میں لا کر بات کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے اور جیسے کہ مَیں نے پہلے ذکر کیا ہے، تمام بین الاقوامی رجحانات اور رائے عامہ اس وقت بھارت کے خلاف ہیں۔ بھارت کے کم و بیش تمام پڑوسی ممالک اس سے بری طرح نالاں اور سہمے ہوئے ہیں۔ پڑوسیوں کو چھوڑ کر باقی بین الاقوامی برادری اسی ملک سے ڈرتی ہے، جو داخلی طور پر مضبوط ہو اور اپنے عوام، اپنے بچوں کو سنبھال کر رکھے۔ آج بین الاقوامی صورت حال یہ ہے کہ یورپی یونین اور کینیڈا لاکھوں شامی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں بسا رہے ہیں۔ ترکی چالیس لاکھ شامی پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ اِدھر بھارت ہے کہ اپنے ہی کروڑوں شہریوں کو بے گھر کرنے کے درپے ہے۔ اس وقت دنیا میں بھارت کی جو ساکھ باقی ہے، وہ پرانی نسل کے ذہنوں میں گاندھی جی کے فلسفہء عدم تشدد اور غیر جانبدار تحریک میں نہرو کی قدآور شخصیت کی وجہ سے ہے۔ بھارت کا وہ سحر کافی حد تک ٹوٹ چکا ہے۔ وزیر اعظم مودی کی شخصیت نے دنیا میں ہندوستانی جمہوریت کا ایک خون آشام اور ناپاک چہرہ متعارف کرادیا ہے۔ یہ چہرہ بین الاقوامی برادری کو کسی زاویے سے بھی قبول نہیں، چنانچہ پاکستان کا کام صرف اتنا ہونا چاہیے کہ بھارت میں مودی کی جلائی ہوئی اس آگ کی طرف دنیا کو مسلسل متوجہ کرتا رہے۔ اس طرح کسی جنگ کی ضرورت نہیں رہے گی، بلکہ جنگ کے بغیر ہی کشمیری اور بھارت میں مقید دیگر اقوام جلد آزادی سے ہمکنار ہوسکتی ہیں۔