ہوشیار! ہم تیزی سے اپنی منزل کی طرف جا رہے ہیں

ہوشیار! ہم تیزی سے اپنی منزل کی طرف جا رہے ہیں
 ہوشیار! ہم تیزی سے اپنی منزل کی طرف جا رہے ہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرے بڑے ہی محترم دوست عبدالماجد صاحب گزشتہ روز نمازِ فجر کے بعد واک پر جاتے ہوئے سنجیدگی سے مجھ سے سوال کر رہے تھے، کیا ہو رہا ہے، سارا دن گزر جاتا ہے بے ڈھنگی مصروفیت میں شام کو لگتا ہے کچھ کیا ہی نہیں ہے، وقت کی بے برکتی، اخلاقی قدروں کا فقدان، بے یقینی کی فضا، رشتوں میں دراڑیں، بڑھتا ہوا معاشی بحران اور اب کرونا وائرس کا خوف آخر ہو کیا رہا ہے؟ بڑے بڑے لیڈر بھی موت کے خوف سے ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملا رہے، گھروں سے نکلنا بند کر دیا ہے، گھر بیٹھے بھی بار بار ہاتھ دھو رہے ہیں،بیماری نہ لگ جائے، مَیں مر نہ جاؤں۔ 84ممالک وہ مسلمانوں کے ہوں یا غیر مسلم کے سب میں خوف بڑھتا جا رہا ہے،اب تو نوبت جہاں تک آ گئی ہے ان مقامات میں بھی ھا ھو کا عالم ہے، جن کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خود لے رکھی ہے۔ میری مراد حرمین الشریفین کے بابرکت مقامات ہیں جہاں خارجیوں کے بعد سعودی عوام پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے، خالی حرم دیکھ کر بار بار حرمین شریفین جانے والوں کی تڑپ اور بڑھ رہی ہے۔


عبدالماجد صاحب کے بڑے ہی سنجیدہ سوال کے جواب میں راقم نے کہا آپ نے نوٹ کیا ہے کرونا وائرس کی بڑھتی ہوئی تباہ کاریوں کے بعد مساجد کی رونقیں بڑھ رہی ہیں،نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، فرمانے لگے ایسا ہی ہے پھر کرونا وائرس کے لئے ڈھونڈے گئے علاج کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری دلچسپ بحث کا نقطہ سامنے آیا، برادریوں کے نام کے ساتھ علاج مشروط کر دیا گیا ہے۔مَیں نے بتایا حقیقت یہ ہے اُمت مسلمہ کو دو جہانوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو14سو سال پہلے ہی نسخہ بتا دیا تھا،جو کرونا وائرس تک محدود نہیں ہے۔ فرمایا گیا ہے مسلمان پانچ وقت نماز پڑھنے سے پہلے وضو کرتا ہے، ہاتھ دھوتا ہے، ہاتھ کی غلاظت دور ہو جاتی ہے، ناک میں پانی ڈالتا ہے تو اندر کی بیماریاں جاتی رہتی ہیں، منہ میں پانی ڈالتا ہے، بازو دھوتا ہے، سر پر ہاتھ پھیرتا ہے،پاؤں دھوتا، تمام اعضا بھی صاف ہو جاتے ہیں، ساری بیماریاں بھی دور ہو جاتی ہیں، گناہوں سے پاکیزگی ملتی ہے، درجات بلند ہوتے ہیں اس سے اچھا علاج کہاں سے آ سکتا ہے،بس بات ہے رجوع کرنے کی، توبہ کرنے کی، سرسجود ہونے کی، مَیں نے بتایا اصل بات بتاؤں تو ماجد صاحب فرمانے لگے، جی فرمائیں۔ مَیں نے بتایا ساری بے یقینی، بداعتمادی انسانیت کی تذلیل اور بے قدری، بے برکتی ہمیں تیزی سے قیامت کی طرف لے جا رہی ہے،جس سے ہم منہ چھپاتے پھر رہے ہیں،حالانکہ دُنیا کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے، جس کا ذائقہ ہر ذی روح نے چکھنا ہے۔ بے راہ روی دُنیا داری کے سمندر میں ہم اس حد تک ڈوب رہے ہیں ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو رہا۔ ہم ایک دوسرے سے کتنا دور ہوتے جا رہے ہیں،ہمارا ملنا مصنوعی، ہمارا ایک ساتھ ہونا مفاد کی خاطر ہمارا جینا دُنیا کے لئے رشتے جو بہن کا تھا، جو بھائی کی ذمہ داری تھی،جو باپ کا احترام اور ماں کی محبت تھی وہ اڑن چھو ہو چکی ہے، حالانکہ ہمارے اردگرد بڑے اہم لوگ تیزی سے ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ میرے لئے تو گزشتہ ہفتہ بڑا کرب کا ہفتہ تھا،جس میں چار میرے بڑے پیارے ہمارے معاشرے کے راج دلارے ہمیں چھوڑ کر ابدی نیند سو گئے، چاروں شخصیات پر ایک ایک کالم کیا کئی کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں۔


کراچی کی پہچان کراچی کے معمار نعمت اللہ خان جو اہل ِ کراچی کے لئے رحمت ِ خداوندی تھے۔ کراچی کو نئی راہیں دے گئے، جماعت اسلامی کے ہوتے ہوئے سب کے لئے مشعل ِ راہ بنے۔ اہل ِ پاکستان کے لئے ”ایثار و قربانی،خدمت“ کی بالعموم اور جماعت اسلامی کے لئے بالخصوص خوبصورت اور حسین روایات چھوڑ گئے۔ نعمت اللہ خان ہی ایسی شخصیت تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے ایسے افراد صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں ان کی زندگی کا ایک ایک پہلو ان کی اپنی اولاد کی تربیت سمیت بطور ایم پی اے، بطور سٹی ناظم ایک ایک لمحہ ہر طالب علم کے لئے سبق ہے، جس پر عمل کر کے معاشرے کو سنوارہ جا سکتا ہے، دُنیاوی اور آخروی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔


دوسری شخصیت مسعود احمد خان کی تھی جو 102 سال کی عمر میں منصورہ لاہور میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ سید مودودیؒ کے ساتھی تھے جماعت اسلامی پاکستان کی مالیات کے ناظم رہے، ان کی زندگی کے روشن پہلو ہمارے لئے مشعل ِ راہ ہیں ان کی مہمان نوازی،دیانت داری، ان کی جماعت سے کمٹمنٹ اور اولاد کی تربیت ہمارے لئے خوبصورت درس ہیں۔ تیسری شخصیت ڈسکہ کے رہائشی اور سید موودیؒ کے ساتھی حاجی عبدالغنی تھے وہ بھی اسی ہفتے ہمیں چھوڑ گے ان کی زندگی میں تبلیغ اسلام قرآن و سنت کی دعوت کی ترویج سے بھری پڑی ہے، آخری ہمارا دوست حفیظ طاہر ہے جو شریف آدمی تھا۔ 2001ء میں مَیں نے روزنامہ ”انصاف“ کو خیر آباد کہا تو انہوں نے گوجرانوالہ چھوڑ کر لاہور ”انصاف“ کے دفتر کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ روزنامہ ”انصاف“ کے ڈپٹی ایڈیٹر اور گوجرانوالہ کے بیورو چیف رہے۔ جناب جنید سلیم کے مخلص جانثار تھے وہ بھی روزنامہ ”انصاف“ کو چار چاند لگاتے لگاتے خود ہی غروب ہو گئے۔اللہ تعالیٰ چاروں احباب کے درجات بلند کرے، چاروں اہم شخصیات کا درمیان میں ذکر آ گیا،جو ہمیں پیغام دے گئے ہم تو جا رہے اب آپ کی باری ہے۔ یہ میرا وہم تھا کہ مَیں بڑا اہم ہوں، پر جلد کالم لکھوں گا، آخر میں اتنا کہوں گا بے یقینی بداعتمادی،اخلاقی قدوں کا فقدان، رشتوں کے زوال کا تعین کرنے کی ضرورت ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے یہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے ہم راستہ بھٹک گئے ہیں، ہمیں رجوع کرنے کی ضرورت ہے، بگاڑ کے دور میں روشنی کی کرن ہماری منتظر ہے۔ ہمیں دوسروں کی فکر چھوڑ کر اپنی طرف آنا ہو گا۔دوسروں کی اولاد کو تماشا بنانے کی بجائے اپنی اولاد کی فکر کرنا ہو گی، موت کو کرونا کے خوف سے یاد نہیں کرنا، بلکہ یوم حساب و قبر کے عذاب سے یاد کر کے تیاری کرنا ہو گی، ہم ٹھیک ہوں گے،خاندان، معاشرہ اور پھر انشاء اللہ پاکستان ٹھیک ہوتا چلا جائے گا۔ آئیں مل کر آج سے تیاری شروع کر دیں، پانچ وقت ہاتھ وائرس سے بچنے کے لئے نہیں، پانچ وقت وضو کر کے نماز کی ادائیگی اور قرآن عظیم الشان کی تلاوت کے لئے آغاز کریں۔

مزید :

رائے -کالم -