بحث و مباحثہ اور رائے دینا میرا حق ہے

Mar 06, 2020

یونس جاوید

تا ریخ کے اوراق پلٹ کر جب ہم مد ینہ کی ریاست میں پہنچتے ہیں تو خلیفۃ المو منین سیدنا عمرؓ بہت سے لو گوں کی بھیڑ میں مسجد سے نکل رہے ہیں۔ جارود بن معلی ان کے ساتھ ہیں۔ راستے میں ایک عورت انہیں ملتی ہے جو ان سے بات کرناچا ہتی ہے۔سیدنا عمرؓدیر تک اس عورت کے ساتھ بات کرتے رہے۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ سیدنا عمرؓنے انہیں سلام کیا توانہوں نے جواب دیا پھرفرمانے لگیں:اے عمر!میں نے تجھے عکاظ میلے میں دیکھا،اس وقت تیرانام عمیرتھا،تم اپنی لاٹھی سے بکریاں چرایا کرتے تھے، پھرکچھ عرصہ بیت جانے کے بعد تیرانام عمررکھ دیاگیا۔پھرتم امیر المومنین بن گئے۔ رعایہ کے معاملات میں ا للہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنااور خوب اچھی طرح سے جان لوکہ جو اللہ تعالیٰ کی وعیدسے ڈر گیا اللہ تعالیٰ اس کے بعید کو قریب کردیتا ہے۔ جوموت سے ڈرگیاوہ وقت ضائع کرنے سے اندیشہ محسوس کرتاہے۔

جس نے حساب کتاب کا یقین رکھ لیا وہ عذاب سے ڈرتارہتا ہے۔وہ دیر تک نصیحت کرتی رہیں تو جا رود بن معلی نے کہا: اے خاتون! تم امیر لمو منین کے حق میں بڑی زیادتی کررہی ہو۔ اس پرسیدنا عمرؓ نے کہا: تم اس خاتون کونہیں جانتے ہو،یہ جلیل القدر خاتون وہ عظیم ہستی ہے کہ جس کی باتوں کواللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں پرسنا،عمرکی کیا مجال ہے کہ اس کی باتوں کونہ سنے۔اللہ کی قسم!یہ جب تک باتیں کرتی رہے گی عمر کھڑا سنتارہے گا۔سیدنا عمرؓنے ان کی ساری باتیں سنیں اور جوانہوں نے مطالبہ کیا اسے پوراکیا۔تسلی سے نصیحت آموز باتیں کرنے کے بعد وہ خاتون وہاں سے واپس ہوئیں۔سیدنا عمرؓنے اپنے ساتھی سے کہا کہ اگر یہ ساری رات بھی یہاں کھڑی مجھ سے نصیحت آموزباتیں کرتی رہیں تومیں یہاں کھڑا ان کی باتیں سنتارہوں گا۔ اگر اس حالت میں نماز فجرکا وقت ہوگیا تونماز ادا کرنے کے لیے جاؤں گا اور پھرواپس آکران کی باتیں سنوں گا۔(استعیاب لابن عبدالبر:91/2،اسد الغابہ:343/3)یہ خولہ بنت ثعلبہ ؓ ہیں۔


اس واقعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس سو سائٹی میں ایک خاتون کوکتنا احترام اور کتنی عز ت دی جاتی تھی اورپھر خاتون بھی ایسی جو مالدارنہیں ہے۔ان خاتون کی فضیلت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کے رسول ؐکے پاس وہ اپنے شوہر کے بارے میں ایک پر یشانی لے کر آئیں اور آپ ؐ کان لگا کر ان کی گفتگو سنتے رہے اور پھر ان ہی کے حق میں اٹھائیسو یں پارے کے آغاز کی آیات نا زل ہوئیں:“یقینااللہ تعالیٰ نے اُس عورت کی بات سُن لی جواپنے شوہرکے بارے میں آپ سے جھگڑا کررہی تھی اوراللہ تعالیٰ سے شکوہ کررہی تھی۔”(سورۃ المجادلہ: 1) اسی واقعہ کو بنیاد بنا کر سیدناعمرؓ نے جارود کو جواب دیا کہ یہ مجھے جب تک کھڑا رکھیں گی میں ان کے حق میں کھڑا رہا ہوں گا۔ ہاں وہ لوگ ایسے تھے جو عورت کے حق کو پہچانتے تھے اوراسے جائز مقام دیتے تھے۔


میں اس عدالت کی بات بھی کرنا چا ہتی ہوں جس عدالت میں ایک مقدمے کے لیے امام شا فعی کی والدہ تشریف لا ئی ہیں۔ قا ضی نے انہیں کہا کہ آپ آکر اپنی گواہی دیں۔وہ جب گواہی دے چکیں تو قا ضی نے کہاکہ اب دوسری عورت آ ئے گی۔ اس پر امام شافعی کی والدہ نے کہا:قا ضی صاحب ٹھہریئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایاہے کہ اگر ایک بھولے تو دوسری یاد دلادے۔ میں بھو لوں گی تو دوسری مجھے یاد دلا ئے گی۔یعنی استثنائی صورت حال تو کہیں بھی ہوسکتی ہے۔


ہم جب اس دور کی خواتین کو دیکھتے ہیں توحیرت ہوتی ہے کہ وہ کتنی آزادی کے ساتھ اپنے رائے دیتی تھیں۔ تاریخ دمشق اورامام بیہقی کی شعب الایمان میں ایک واقعہ کاتذکرہ ہے۔ سیدہ اسماء بنت یز ید رسول اللہ کی مجلس میں آتی ہیں اورآپ سے کہتی ہیں:اے اللہ کے رسول یہ مرد تو ہم سے بازی لے گئے۔ یہ باجماعت نمازیں اد اکرتے ہیں،یہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں،یہ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے جاتے ہیں۔ آپ یہ بتائیے کہ عورتوں کے لیے کیا ہے؟اس پر آپ نے فر مایا: جو عورت اپنے شو ہر کا خیال رکھتی ہے، گھر یلو ذمہ داریوں میں اپنے شوہرکی مرضی کوپیش نظر رکھتی ہے وہ عورت مر دوں کے ثواب کو پا لے گی۔

یعنی جیسے مرد اپنے کام کر کے اجر وثواب حاصل کرتے ہیں اسی طرح عورت بھی اپنی ذمہ داریوں کوپوراکرکے مردوں کے برابر اجر و ثواب حاصل کر سکتی ہے۔ آپ ؐنے اس موقع پرصحابہ کرامؓکوخاص طورپرتوجہ دلائی۔ آپ ؐنے صحابہ کرام سے فرمایا:“کیا تم نے اس خاتون کی بات سنی؟اس نے دینی لحاظ سے کتنا عمدہ سوال کیا ہے،کیا تم نے کسی کواس انداز سے سوال کرتے ہوئے سنا؟”تو صحابہ کرام نے فرمایا:“اے اللہ کے رسول!ہم نے اس سے پہلے کسی کواس انداز میں سوال کرتے نہیں سنا۔”ہاں وہ دور ایساتھا جب عورت کی قدرکی جاتی تھی،اس کو دانش مند تسلیم کیاجاتاتھااوراس کی رائے کا خیال رکھا جاتا تھا۔


میں ایک ایساواقعہ بھی آپ کے سا منے رکھنا چا ہتی ہوں جو تا ریخ اسلامی کابڑا نادر اورعجیب واقعہ ہے۔یہ صلح حدیبیہ کاواقعہ ہے۔ حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ جب صلح نامہ کی تحریر سے فراغت ہوئی تو رسول اللہ ؐ نے اپنے صحابہ ؓسے فرمایا:“اٹھو! قربانی کر ڈالو اور سر منڈوا ڈالو۔”راوی کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم کوئی شخص بھی ان میں سے نہ اٹھا، یہاں تک کہ آپ ؐ نے تین مرتبہ یہی فرمایا۔پھر جب ان میں سے کوئی نہ اٹھا تو آپ سیدہ ام سلمہ ؓ کے پاس گئے اور ان سے (یہ سب واقعہ) بیان کیا، جو لوگوں سے آپ ؐ کو پیش آیا تھا۔ ام المومنین ام سلمہ ؓ نے کہا یا نبی اللہ! کیا آپ یہ بات چاہتے ہیں؟ آپ باہر تشریف لے جائیے اور ان میں سے کسی کے ساتھ کلام نہ کیجیے، یہاں تک کہ آپ اپنے قربانی کے جانوروں کو ذبح کر دیجیے اور اپنا سرمونڈھنے والے کو بلائیے تاکہ وہ آپ کا سرمونڈھے۔چنانچہ آپؐ باہر تشریف لائے اور ان میں سے کسی سے کچھ گفتگو نہیں کی یہاں تک کہ آپؐ نے (سب کچھ) کرلیا۔اپنے قربانی کے جانور ذبح کر لیے اور اپنے سرمونڈھنے والے کو بلایا،اس نے آپ ؐ کا سر مونڈھ دیا، پس صحابہ ؓ نے جب یہ دیکھاتو اٹھے اور انھوں نے بھی قربانی کی اور ان میں سے ایک دوسرے کا سرمونڈ ھنے لگا۔ ”(بخاری:2732)


میں یہ بات ضرورآپ کے سا منے رکھنا چاہتی ہوں کہ آج کے دورمیں اوراس دورمیں بڑافرق تھا۔وہ ایسا دور تھا جس میں عورت کوزندگی کا حق نہیں تھا،تعلیم کاحق نہیں تھا۔ اس کی ذات کی کیا حیثیت تھی؟اس سے جانوروں سے بھی بد ترسلوک کیاجاتا تھا۔ سو تیلا بیٹا بھی اگراپنی سوتیلی ماں پر چادر ڈال دیتا تو باپ کی بیوہ اس کے نکاح میں آجاتی تھی۔ جہاں عورت کی کو ئی ہستی ہی نہیں تھی وہاں رسول اللہ ؐنے عورت کویہ مقام دیا کہ اس کی رائے کے مطابق آپ ؐ تشر یف لے گئے اور صحابہ کرامؓ سے کہنے کی بجائے آپؐنے جانور قر بان کیا،سر منڈوایا، احرام کھول دیاپیچھے پیچھے سب صحابہؓ نے ویسے ہی کیا۔ اللہ کے رسول ؐنے ایک عورت کو اس قدر حق دیا۔ہاں اسلام نے ہی عورت کو آزاد کیا۔ہمارے یہاں سب سے بڑی مسئلہ یہ ہے کہ اسلام اورمسلمانوں کو ملا لیا جاتا ہے۔ یہ مفروضہ ہے کہ آج کے مسلمان اسلام پر چل رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب کو اپنے سچے دین کی طرف توجہ کرنے اور اس کا علم حاصل کر نے کی ضرورت ہے۔


میں بحث و مبا حثہ کی کچھ اورمثالیں آپ کے سامنے رکھناچاہتی ہوں۔ سیدہ عا ئشہؓ رسول اللہ ؐکے زیر تر بیت رہیں۔ وہ ذہین خاتون تھیں، بہت زیادہ جری بھی تھیں اور پراعتمادبھی تھیں۔ وہ سوال کرتے ہو ئے کسی جھجک کو خاطر میں نہیں لا تی تھیں۔ان کے سامنے جب کبھی کو ئی بات ہو تی تھی تووہ تحقیق کیے بغیر بات کوقبول نہیں کرتی تھیں۔سیدہ عائشہ ؓسے روایت ہے، میں نے رسول اللہ سے پوچھا: یہ جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:جس دن بدل جائے گی زمین اس زمین کے سوا اور آسمان بھی بدل دیے جائیں گے ”(ابراہیم: 48) اس وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ ؐے فرمایا:“پل صراط پر ہوں گے۔”(مسلم:7056) یہ امت سیدہ عا ئشہ ؓکے علم کی و جہ سے دینی معاملات کو سمجھنے کے قا بل ہو ئی ہے کیو نکہ وہ سوال کر تی تھیں، ڈسکشن کرتی تھیں اور اس کے نتیجے میں الجھنیں دور ہو تی تھیں۔


اسی طرح ام المومنین سیدہ عائشہ ؓسے روایت ہے کہ اسماء نے پوچھا رسول اللہ ؐ سے، حیض کا غسل کیسے کروں؟ آپ ؐ نے فرمایا:“پہلے پانی بیری کے پتوں کے ساتھ لے اور اس سے اچھی طرح پاکی کرے (یعنی حیض کا خون جو لگا ہوا ہو دھوئے اور صاف کرے) پھر سر پر پانی ڈالے اور خوب زور سے ملے یہاں تک کہ پانی مانگوں (بالوں کی جڑوں) میں پہنچ جائے۔ پھر اپنے اوپر پانی ڈالے (یعنی سارے بدن پر) پھر ایک پھاہا (روئی یا کپڑے کا) مشک لگا ہوا لے کر اس سے پاکی کرے۔”اسماء ؓ نے کہا: کیسے پاکی کرے؟ رسول اللہ ؐنے فرمایا:“سبحان اللہ پاکی کرے۔”سیدہ عائشہ ؓ نے چپکے سے کہہ دیا کہ خون کے مقام پر لگا دے پھر اس نے جنابت کے غسل کو پوچھا۔ آپؐ نے فرمایا:“پانی لے کر اچھی طرح طہارت کرے۔ پھر سر پر پانی ڈالے اور ملے یہاں تک کہ پانی سب مانگوں میں پہنچ جائے، پھر اپنے سارے بدن پر پانی ڈالے۔”سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: انصار کی عورتیں بھی کیا عمدہ عورتیں تھیں۔ وہ دین کی بات پوچھنے میں شرم نہیں کرتی تھیں۔(صحیح مسلم:750)


اس حدیث سے بھی واضح ہوتاہے کہ زندگی کا کو ئی معاملہ ایسا نہیں تھاجس کے بارے میں اس دور کی خواتین سوال نہ کر تیہوں کیو نکہ وہ عمل کر نا چا ہتی تھیں۔ وہ اسلامی طرز زندگی کو اپنا ئے ہو ئے تھیں۔ وہ زندگی میں اسلام کو بر تنا چا ہتی تھیں۔وہ کو ئی عمل ایسا نہیں کر نا چا ہتی تھیں کہ جس کی و جہ سے اللہ تعالیٰ کے یہاں پکڑ ہو اس و جہ سے ہر ایک چیز کو وضاحت سے سمجھتی تھیں۔اسی طرح سے صحا بیات کو ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ سے جوسوال براہ راست نہیں ہو سکتے تھے ان کے بارے میں پوچھنے کے لیے سیدہ عائشہؓ اور آپ ؐکی دیگرازواج مطہرات کے پاس پہنچتی تھیں تا کہ دین کے معا ملے میں پوری وضاحت ہو جائے۔ڈسکشن کافورم عورت کے لیے کھلارکھاگیا۔ وہ بحث و مباحثہ کا حق رکھتی ہے۔یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ جس حدیث میں نبی ؐنے عورت کے بارے میں ایک خاص پس منظر میں فرمایاکہ وہ عقل اور دین کا نقص رکھتی ہے تو ہمارے یہاں علم والوں نے اس کو بنیاد بنا کر اس کو خواتین کے سارے طبقے پر Imposeکر دیا حالانکہ استثنائی مثالیں توہمیشہ ہو تی ہیں۔یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ مرد کی ذہا نت اور عورت کی ذہانت میں فرق ہے۔

عورت جزویات میں جا کر پوری تفصیل کے ساتھ کسی معاملے کا جا ئزہ لیتی ہے اور مرد کلی طور پراس کا جائزہ لیتا ہے۔ اسی و جہ سے مرد بڑے معاملات کی بات کرتاہے اور عورت چو نکہ بچوں کی پیدا ئش،ان کی پرورش، ان کی تربیت اور ایسے ہی دیگرمعا ملات میں مصروف ہو تی ہے جہاں جزویات تک دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اس و جہ سے اس کی سوچ کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عورت اور مرد کے حوالے سے اسلام کا موقف یہ ہے کہ دونوں پیدا ئش کے اعتبارسے بھی برابر ہیں، نیک اعمال اور ان کے اجر کے اعتبار سے بھی برابر ہیں، دونوں کو مال رکھنے کا بھی، جائیداد رکھنے کا بھی، کمانے کا بھی پورا حق ہے،انسان ہو نے کے ناطے جو کام مرد کر سکتا ہے وہ کام اچھے طریقے سے عورت بھی کر سکتی ہے۔ دونوں میں صرف تھوڑاسافرق ہے۔دونوں کی قوت میں فرق ہے، سوچ کے انداز میں فرق ہے، فطری صلاحیت میں فرق ہے اسی کے مطا بق رب العزت نے دونوں کے کاموں کی تقسیم کی ہے۔ اس کو تسلیم کر نا چا ہیے۔


حقیقت یہ ہے کہ عورت کو اللہ تعالیٰ نے ذہانت دی ہے،وہ اپنی ذہا نت کا بہتر استعمال کر سکتی ہے اورکر تی بھی ہے۔ اسے اس سے بھی آگے بڑھ کرذہانت کا استعمال کرنا چا ہیے۔ عورت اور مرد دونوں ہی ساتھی بنیں تو زند گی خوب صور ت ہو جا تی ہے۔ جب عورت اور مرد کے ما بین گفتگوکاسلسلہ محض حیاتیاتی سطح پررہے مثلاًخوراک، لباس اورایسے ہی دوسرے معاملات موضوع گفتگو بنے رہیں تو ظا ہر ہے کہ وہاں پر عورت کی ذہانت اورجو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیت پورے طریقے سے کام میں نہیں آتی۔ خاندا نی زندگی کے معاملات کو سلجھانے کے لیے عورت جو کردار اد اکرتی ہے اکثراوقات مردوہ کردار اد انہیں کرپاتااس لیے دونوں کو مل کر معاملات طے کرنے چاہئیں۔ بحث و مباحثہ کا حق، رائے کاحق رب نے دیا ہے۔ اس حق کو ہمیں لینے کی ضروت نہیں ہے، اس کے لیے احتجاج کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ حق تو ہمیں پہلے ہی مل چکا۔ہمیں تو پہلے ہی زنجیروں سے آزاد ی ملی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں فہم نصیب فرمائے۔ (آمین)

مزیدخبریں