ٍ وہ وقت جب پروٹوکول دینے والی پولیس نےخیبرپختونخوا کےوزیراعلیٰ کومیٹنگ کےدوران ہی گرفتار کرلیاتھا
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان میں جمہوریت کو ماضی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے عہدوں پر موجود اعلیٰ ذمہ داران کو بھی اذیت کا سامنا کرنا پڑا ، ایسا ہی کچھ 1997 میں سرحد(موجودہ صوبہ خیبرپختونخوا) کے وزیراعلیٰ سردار مہتاب عباسی کیساتھ ہواجنہیں پولیس قبائلی معاہدین سے ملاقات کیلئے پروٹوکول دے کر وہاں لے گئی لیکن جمہوری حکومت کا تخت الٹ گیا اور پھر اسی ریسٹ ہائوس میں ہی مہتاب عباسی کو گرفتار کرکے نظربند کردیاگیا۔
صحافی جاوید چودھری نے اپنے کالم میں لکھا کہ انسان اپنی کمپنی (صحبت) سے سیکھتا ہے‘ ہم ان پانچ لوگوں کی اوسط ہوتے ہیں جن میں ہم اپنا زیادہ وقت گزارتے ہیں اور پولیس اہلکاروں کا زیادہ تر وقت جرائم پیشہ لوگوں کی صحبت میں گزرتا ہے چناں چہ یہ ذہنی طور پر سخت ہو چکے ہوتے ہیں،آپ کبھی سرجن اور پولیس افسر کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھیں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ خون‘ زخم‘ لاشیں اور جرائم دیکھ دیکھ کر ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں‘ یہ لوگ روتے نہیں ہیں اور جو لوگ روتے نہیں ہیں ان کو موٹی ویٹ کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے‘دوسرا پولیس اہلکار زبردست ایکٹر ہوتے ہیں‘ آپ انھیں لیکچر دیں‘ یہ آپ کے سامنے بیٹھ کر ایسی ایکٹنگ کریں گے کہ آپ کو محسوس ہو گا یہ اندر سے بدل چکے ہیں لیکن جوں ہی دباؤ ہٹے گا آپ ان کا بدلتا ہوا رنگ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘
مجھے سردار مہتاب عباسی نے ایک دل چسپ واقعہ سنایا تھا‘ یہ 1997 میں کے پی کے (اس وقت صوبہ سرحد) میں وزیراعلیٰ تھے‘ یہ 12 اکتوبر کو سوات ڈویژن کے دورے پر تھے۔یہ سوات کی حدود میں داخل ہوئے تو ڈی آئی جی نے ان کا استقبال کیا‘ پولیس نے انھیں گارڈ آف آنر بھی دیا اور یہ انھیں پروٹوکول بھی دیتی رہی اور سیکیورٹی بھی‘ وزیراعلیٰ کی ریسٹ ہاؤس میں علاقے کے معززین کے ساتھ بات چیت چل رہی تھی‘ ڈی آئی جی پیچھے کھڑا تھا اور پھر اچانک جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی۔
ملک میں مارشل لاء لگ گیا‘ اسلام آباد سے حکم آیا اور وزیراعلیٰ کو سیلوٹ کرنے والے ڈی آئی جی ہی نے مہتاب عباسی کو گرفتار کر لیا اور اسی ریسٹ ہاؤس میں بند کر دیا‘ مہتاب عباسی کو پولیس کی بدلتی ہوئی نظریں آج تک نہیں بھولتیں۔