انڈونیشیا سے بھتہ خور "لقمان ہلاکو "کو پکڑ کر پاکستان لانے والے بہادر پولیس اہلکاروں کیساتھ گوجرانوالہ کے تاجروں نے کیا سلوک کیا؟ جان کر کوئی بھی شرم سے پانی پانی ہوجائے
لاہور، گوجرانوالہ (ویب ڈیسک ) پاکستان میں بھتہ خوری کی خبریں عام ملتی رہی ہیں اور اگر قانون نافذ کرنیوالے ادارے شکنجہ کسیں تو جرائم پیشہ عناصر بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں، لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ بیرون ملک سے بھی یہ گروپ کام کرتے رہتے ہیں، ایسا ہی کچھ گوجرانوالہ کے تاجروں کیساتھ ہوا جن کا ہلاکو گینگ نے جینا دوبھر کررکھاتھا لیکن مہینوں کی کاوش کے بعد پولیس اہلکار انڈونیشیا سے ملزم کو پکڑ کر لانے اور وہاں کی عدالت سے اجازت لینے میں کامیاب ہوگئے لیکن جب تاجروں کی اس گروہ سے جان چھوٹی تو لاکھوں روپے بھتہ دینے والوں نے جان پر کھیل کر بیرون ملک سے ملزم پکڑ کرلانیوالے اہلکاروں کیلئے محض پچاس ، پچاس ہزار روپے انعام کا اعلان کیا اور سٹیج سے باقاعدہ انائونسمنٹ کروائی گئی ۔
روزنامہ ایکسپریس میں جاوید چودھری نے لکھا کہ "آرپی او گوجرانوالہ،گوجرانوالہ ڈویژن کے پولیس اہلکاروں کو پرفارمنس سرٹیفکیٹ اور کیش ریوارڈ دینا چاہتے تھے‘ یہ مجھے موٹی ویشن سیشن کے لیے گوجرانوالہ بلانا چاہتے تھے‘ میں حق دوستی ادا کرنے کے لیے گوجرانوالہ پہنچ گیا۔چیمبر آف کامرس کا ہال پولیس اور تاجروں سے بھرا ہوا تھا‘ ہم جس طرف دیکھتے تھے پولیس کی وردی نظر آتی تھی‘ یہ لوگ توجہ سے بات بھی سن رہے تھے اور اچھی اور بری باتوں پر ریسپانس بھی کر رہے تھے‘ فنکشن پولیس کے ’’ہائی اچیورز‘‘ کے اعزاز میں منعقد کیا گیا تھا‘ سرٹیفکیٹ اور کیش ریوارڈ کے لیے اسٹیج پر آنے والے ہر پولیس اہلکار کی کہانی اور پرفارمنس متاثرکن تھی‘ یہ لوگ کس طرح انتہائی مشکل حالات میں عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔
یہ جذبہ حقیقتاً قابل ستائش تھا‘ ہر شخص‘ ہر اہلکار کی کہانی ہوش ربا تھی اور بے اختیار اسے سیلوٹ کرنے کو دل چاہتا تھا لیکن جب لقمان ہلاکو کو تلاش کرنے اور پاکستان لانے والے دونوں اہلکارا سٹیج پر آئے تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا‘ یہ گوجرانوالہ کے اصل ہیرو تھے اور لوگ دل وجان سے ان کے لیے تالیاں بجا رہے تھے‘ میں نے ان سے کہا ’’آپ دیکھ لیں لوگ آپ کی کتنی عزت کر رہے ہیں۔آپ کوشش کریں یہ عزت مزید بڑھے اور لوگ اگلی مرتبہ آپ کے ہاتھ چومیں‘‘۔
دونوں اہلکاروں کے منہ سے ان شاء اللہ نکلا۔ان لوگوں کا کارنامہ چھوٹا نہیں تھا‘ یہ دہشت کی علامت لقمان بٹ کو انڈونیشیا سے پکڑ کر لائے تھے‘ لقمان ہلاکو کون تھا؟ یہ بھی ایک ہوش ربا داستان ہے‘لقمان ہلاکو کا اصل نام لقمان بٹ تھا‘ یہ گوجرانوالہ کے محلے فتومنڈ کا رہنے والا تھا‘ اس نے 2010 میں اپنے بھائی نعمان (نومی بٹ) کے ساتھ مل کر گینگ بنایا اور تاجروں سے بھتہ لینا شروع کر دیا‘ یہ لوگ ’’ہلاکو گینگ‘‘ کہلاتے تھے‘ گینگ کا پہلا ہدف فتومنڈ کا عارف بٹ تھا‘ عارف بٹ نے لقمان کو ادھار دے رکھا تھا‘ اس نے پیسے واپس مانگ لیے اور لقمان ہلاکو نے عارف بٹ اور اس کے دو ساتھیوں پر فائرنگ کر دی۔
علاقے میں خوف پھیل گیا اور یہ گینگ اس خوف میں پروان چڑھنے لگا‘ گینگ عام چھوٹے موٹے تاجروں سے بھتہ لیتے لیتے بڑے صنعت کاروں اور امپورٹر تک پہنچ گیا‘ یہ لوگ انکار کرنے والوں کو گولی سے اڑا دیتے تھے‘ گوجرانوالہ کے مختلف تھانوں میں لقمان بٹ کے خلاف 28 پرچے درج ہو چکے تھے لیکن پورے شہر میں کوئی شخص ہلاکو کے خلاف گواہی دینے کے لیے تیار نہیں تھا‘ بہرحال پولیس نے 2012 میں اس کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا‘ لقمان بٹ کو پتا چل گیا اور یہ ملک سے بھاگ گیا‘ یہ دبئی میں پناہ گزین ہو گیا لیکن اس کا گینگ چلتا رہا‘ لقمان ہلاکو کے نمائندے بھتے کی رقم جمع کر کے اسے دبئی بھجوا دیتے تھے‘ تاجر اگر انکار کرتے تھے تو ہلاکو پہلے انھیں فون کرتا تھا اور پھر گولی کا نشانہ بنا دیتا تھا۔
لقمان ہلاکو کا کیس سب انسپکٹر خالد نواز کے حوالے کر دیا گیا‘ یہ ایمان دار‘ بہادر اور پڑھا لکھا نوجوان ہے‘ اس نے لقمان ہلاکو کی ٹریول ہسٹری اور رقم کی منتقلی کا ریکارڈ نکال کر انٹرپول کو دے دیا‘ انٹرپول نے ریڈ وارنٹ جاری کر دیا‘ لقمان ہلاکو چالاک تھا‘ یہ دبئی سے ملائیشیا بھاگ گیا‘ یہ ملائیشیا سے تھائی لینڈ اور پھر وہاں سے انڈونیشیا چلا جاتا تھا‘ موبائل فون استعمال نہیں کرتا تھا‘ انٹرنیٹ کالز کرتا تھا اور ساؤتھ افریقہ اور انگلینڈ کے نیٹ ورک استعمال کرتا تھا‘ خالد نواز نے ساؤتھ افریقہ اور برطانیہ کے پولیس ڈیپارٹمنٹس سے بھی رابطہ کیا لیکن یہ بھی لقمان ہلاکو کو ٹریس نہ کر سکے‘ پولیس کو چھ ماہ کی کوشش سے ٹپ ملی ہلاکو تھائی لینڈ میں نظر آیا تھا‘ پولیس نے خالد نواز کو تھائی لینڈ بھیج دیا۔
خالد نواز تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں اس کا پیچھا کرتا رہا‘ یہ تین ماہ بعد ملائیشیا میں اس کے قریب پہنچ گیا لیکن لقمان کو بھنک پڑ گئی اور وہ غائب ہو گیا یوں پولیس مشن ناکام ہو گیا‘ خالد نواز واپس آ گیا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری‘ یہ اس کا پیچھا کرتا رہا‘ ہلاکو اس دوران مسلسل بھتہ لیتا رہا‘ صنعت کار اسے ہر ماہ کروڑوں روپے بھتہ دیتے تھے‘ہلاکو کا زیادہ تر وقت ملائیشیا میں گزرتا تھا‘ طارق عباس قریشی نے خالد نواز کو ایک بار پھر ہلاکو کی تلاش میں ملائیشیا بھجوا دیا‘ اے ایس آئی فیصل معین بھٹہ بھی اس بار اس کے ساتھ تھا‘ لقمان ہلاکو اس دوران ملائیشیا سے انڈونیشیا چلا گیا۔
اس نے وہاں شادی کر لی تھی اور یہ جعلی کاغذات تیار کر کے انڈونیشین بن چکا تھا‘ آپ اس کی چالاکی دیکھیں یہ جکارتا سے اڑھائی ہزار کلو میٹر دور جنوبی سماٹرہ کے چھوٹے سے قصبے میں رہ رہا تھا اور لوگ اسے انڈونیشین سمجھتے تھے‘ بہرحال خالد نواز اور فیصل معین اس تک کیسے پہنچے‘ اسے کس طرح گرفتار کیا گیا اور عدالت کو کس طرح یقین دلایا گیا یہ انڈونشین نہیں یہ پاکستانی ہے اور اس کا نام لقمان ہلاکو ہے۔
یہ داستان کسی بھی طرح ہالی ووڈ کی فلم سے کم دل چسپ نہیں‘اگر کوئی ڈائریکٹر اس پر فلم بنائے تو یہ باکس آفس کی سپر ہٹ فلم ہوگی‘ قصہ مختصر یہ دونوں افسر لقمان بٹ (ہلاکو) کو 24 جنوری کو پاکستان لے آئے‘ پولیس 25 جنوری کو اسلحہ برآمد کرانے کے لیے اسے ڈسکہ روڈ لے گئی‘ راستے میں اسے اس کے دشمن ماسٹر اعجاز رسول نے گولی مار کر قتل کر دیا یوں لقمان بٹ عرف ہلاکو اور اس کا گینگ دونوں ختم ہو گئے اور گوجرانوالہ کے لوگوں نے شکر ادا کیا۔
یہ داستان انتہائی دل چسپ تھی‘ہلاکو بٹ گوجرانوالہ کے بدنام زمانہ گینگسٹرننھو گورایا کی طرح دہشت کی علامت تھا‘ یہ بھی ملائیشیا میں بیٹھ کر گینگ چلا رہا تھا‘ ننھو گورایا کو ذوالفقار چیمہ2009 میں کوالالمپور سے گرفتار کر کے لائے تھے اور وہ پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا‘ پولیس نے اس کی لاش ٹرالی میں لاد کر پورے شہر میں پھرائی تھی اور لوگوں نے پولیس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی تھیں‘ لقمان ہلاکو بھی اسی لیول کا مجرم تھا‘ یہ تاجروں اور صنعت کاروں سے کروڑوں روپے بھتہ وصول کرتا تھا لیکن آپ لطیفہ ملاحظہ کیجیے پولیس کے جن اہلکاروں نے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیاں داؤ پر لگا کر لقمان ہلاکو کو گرفتار کیا‘ جو ڈیڑھ سال تک دبئی‘ تھائی لینڈ‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا میں مارے مارے پھرتے رہے۔
جنہوں نے دن دیکھا اور نہ رات اور جنھیں لقمان ہلاکو نے دس دس کروڑ روپے رشوت کی پیش کش کی مگر ان کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی‘ گوجرانوالہ چیمبر آف کامرس نے انھیں اس کارنامے کے بدلے صرف پچاس پچاس ہزار روپے انعام دیا اور اس کے لیے باقاعدہ اسٹیج سے اناؤنسمنٹ بھی ہوئی‘ مجھے یہ دیکھ اور سن کر انتہائی شرمندگی ہوئی‘ دنیا میں فرض اور ایمان داری کی کوئی قیمت نہیں ہوتی‘ یہ دونوں پولیس اہلکار بھی رقم اور انعام سے بالاتر ہیں لیکن آپ ہمارے کاروباری طبقے کا ظرف ملاحظہ کیجیے۔
یہ دس سال لقمان بٹ کو کروڑوں روپے بھتہ دیتے رہے‘ یہ اس سے گالیاں بھی سنتے رہے اور گولیاں بھی کھاتے رہے لیکن جن لوگوں نے دن رات ایک کر کے‘ اپنی اور اپنے خاندان کی جان خطرے میں ڈال کر ہلاکو سے ان کی ۔جان چھڑائی ان کے پاس اپنے محسنوں کے لیے صرف پچاس ہزار روپے تھے‘یہ لوگ اتنی رقم کا اپنی گاڑیوں میں روز پٹرول ڈلواتے ہیں اور یہ وہ رویہ ہے جو لقمان ہلاکو جیسے لوگ بھی پیدا کرتا ہے اور پولیس کے فرض شناس افسروں کو کریز سے باہر نکل کر کھیلنے سے بھی روکتا ہے لہٰذا گوجرانوالہ کے تاجروں اور صنعت کاروں کو شرم آنی چاہیے اور انھیں فوری طور پر دونوں اہلکاروں کو کروڑ کروڑ روپے انعام دینا چاہیے تاکہ دوسرے پولیس اہلکاروں کو بھی ترغیب ملے"۔