پرل اور راوی
چین کے معروف تجارتی شہر گوانگزو کا شمار چین کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے اسے کینٹن بھی کہتے ہیں اور اسی مناسبت سے اس کے باشندوں کو کینٹونیز بھی کہا جاتا ہے، چین کے سب سے بڑے تجارتی میلے کینٹن فئیر کا شمار بھی دنیا کے بڑے تجارتی میلوں میں ہوتا ہے.
گوانگزو سے گزرنے والے دریائے پرل کا نظارہ بہت ہی خوبصورت اور دلفریب ہے، اسے دریائے کینٹن بھی کہا جاتا ہے، یہ دریا تقریباً 2،400 کلومیٹر طویل ہے اور چین کے مختلف علاقوں سے گزرتا اور بے شمار بستیوں کو سیراب کرتا جنوبی چین کے سمندر میں شامل ہوجاتا ہے، اس کی ایک وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ یہ کینٹن گوانگزو جیسے بڑے شہر سے گزرتا ہے اور یہیں اس کا وہ دلفریب نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے جہاں گوانگزو کی بلند و بالا، عالیشان اور جدید ترین عمارتوں کے درمیان ٹھاٹھیں مارتا ہوا دریائے پرل اپنی پوری روانی اور شان و شوکت کے ساتھ گزرتا ہے.
دریائے پرل کو دیکھتے ہی مجھے میرا شہر لاہور بالخصوص دریائے راوی شدت سے یاد آیا، گو کہ راوی اور پرل کے حجم اور ان کے پانیوں کی مقدار میں خاصا فرق ہے لیکن پرل کو دیکھتے ہی مجھے راوی کی پرانی روانی یاد آگئی کہ کبھی راوی بھی ایسے ہی بہتا تھا لیکن راوی کو قید کر دیا گیا، اب اس کا پانی بھارتی تحویل میں ہے.
راوی کی داستان بھی بڑی دلچسپ ہے، یہ پہلے ایراوتی کہلاتا تھا، دریائے راوی 720 کلومیٹر طویل ہے بھارتی درہ روتنگ ہماچل پردیش سے نکل کر کشمیر کی جنوبی سرحد تک پہنچتا ہے اور وہاں سے تقریباً 80 کلومیٹر کے بعد پنجاب میں داخل ہوتا ہے اور پاکستانی پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے گزرتا ہے، مغلیہ دورِ حکومت میں راوی کے کنارے پر شاہی قلعہ واقع تھا پھر راوی نے اپنا رخ کامران کی شاہانہ بارہ دری کی طرف موڑ لیا.
ہزاروں برس قبل دریائے راوی کے کنارے بہت بڑی تہذیب آباد تھی جو 1856 میں ساہیوال کے قریب ہڑپہ کے مقام پر اس وقت دریافت ہوئی جب لاہور اور ملتان کے درمیان ریلوئے لائن بچھائی جا رہی تھی، جنوبی ایشیا میں دریافت ہونیوالی اس قدیم تہذیب کے تانے بانے موہنجوداڑو سے جا ملے جو لگ بھگ 5 ہزار برس قدیم انڈس ویلی کے نام سے دنیا بھر میں جانی اور پہچانی جاتی ہے.
دریائے راوی کے نہری نظام میں نہر اپر باری دو آب مادھو پور بھارت سے نکلتی ہے، جبکہ نہر لوئر باری دو آب کا ہیڈورکس بلوکی میں ہے یہ ملتان اور ساہیوال کو سیراب کرتی ہے.
تقسیمِ ہند کا تاریخی مرحلہ پنجاب کی تقسیم کا بھی باعث بنا، پنج آب یعنی پانچ دریاؤں کی سرزمین بھی تقسیم ہوگئی اور اور اس تقسیم کے کئی برسوں بعد پنجاب کے دیگر دریاؤں کی طرح 1960 میں سندھ طاس معاہدے کے تحت راوی بھی قید کردیا گیا جس کے باعث یہ اپنے قدرتی پانی، وسائل اور حسن سے محروم ہوگیا.
دریائے پرل کے کنارے میں یہی سوچ رہا تھا کہ راوی کو قید ہوئے 60 برس ہوگئے، کاش آج سے 60 برس قبل راوی کو قید نہ کیا جاتا اور یہ بھی پرل کی طرح آزاد ہوتا، اس کی روانی سے زمین سیراب ہو رہی ہوتی، نئی بستیاں آباد ہو رہی ہوتیں اور کیا ہی خوب ہو کہ راوی آزاد ہوجائے، اس کی روانی لوٹ آئے، اس میں پھر سے کشتی رانی اور ماہی گیری کا آغاز ہو، اس کے اردگرد بھی دریائے پرل اور گوانگزو شہر کے جیسی بلند و بالا عالیشان عمارتیں تعمیر ہوں، سرسبز و شاداب باغ بن جائیں، سیر و سیاحت کو فروغ ملے، لاہور کے ماتھے کے جھومر دریائے راوی کا قدرتی حسن بحال ہوجائے.
جے ایتھوں کدی راوی لنگھ جاوے
حیاتی پنج آبی بن جاوے
جے راوی وچ پانی کوئی نئیں
تے اپنی کہانی کوئی نئیں
جے ایتھوں کدی راوی لنگھ جاوے !
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
.
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔