عورت  مارچ کے خلاف سینیٹرساجد میربھی  میدان میں آگئے،نیب سےایسا مطالبہ کردیا کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘کا نعرہ لگانے والے پریشان  ہوجائیں گے

عورت  مارچ کے خلاف سینیٹرساجد میربھی  میدان میں آگئے،نیب سےایسا مطالبہ ...
عورت  مارچ کے خلاف سینیٹرساجد میربھی  میدان میں آگئے،نیب سےایسا مطالبہ کردیا کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘کا نعرہ لگانے والے پریشان  ہوجائیں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن)مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد میر نے کہا ہے کہ پاکستانی معاشرہ مادر پدر آزاد نہیں، یہاں اسلامی اقدار کی پابندی کرنا ہو گی،آزادی نسواں کی آڑمیں عورت ہی عورت کااستحصال کررہی ہے،مٹھی بھرمغرب زدہ عورتوں کی فنڈنگ کون کرتاہے؟ نیب اِنکی تحقیقات کرے، مُلک میں ایسے کسی بھی فحاشی پھیلانے والے پروگرام کے انعقاد کی ہرگزاجازت نہ دی جائے،جس سے عورتوں کے ہاتھوں عورتوں کا استحصال کیا جائے،ا غیار کی فنڈنگ سے معصوم عورتوں سے حقوق نسواں کی تحریک کی آڑ میں شرارت کرائی جارہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سینیٹرعلامہ ساجد میر کا کہنا تھاکہ مدینہ کی اسلامی ریاست میں عورتیں بازار کی زینت نہیں بنتی تھیں،یہاں عورت کو اشتہار بنا دیا گیاہے،تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی،یونان، مصر، عراق، ہند، چین ، غرض ہرقوم اور ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں، لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے عورتوں کی خریدوفروخت کرتے،ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیاجاتاتھا،حتیٰ کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے،ہندوستان میں شوہر کی لاش پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا،واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ،معصیت کا دروازہ اور گناہ کا مجسم سمجھتے تھے،اس سے تعلق رکھناروحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے،دنیا کی زیادہ تر تہذیبوں میں عورت کی سماجی حیثیت نہیں تھی،اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا،اس کے معاشی وسیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی،وہ باپ کی، پھر شوہر اور اس کے بعد اولادِ نرینہ کی تابع اور محکوم تھی، اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتدار حاصل تھا،یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔

انہوں نے کہا  کہ  اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت وپستی کے گڑھوں سے نکالا جبکہ وہ اس کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گو ارا کرنے سے بھی انکار کیا جارہا تھا تو نبیِ کریم ﷺ رحمۃ للعالمین بن کر تشریف لائے اور آپﷺ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی اس گڑھے سے نکالااور اس زندہ دفن کرنے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے،قومی وملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے؟ اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپی،مغربی تہذیب بھی عورت کوکچھ حقوق دیتی ہے مگر عورت کی حیثیت سے نہیں بلکہ یہ اس وقت اس کو عزت دیتی ہے، جب وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں کابوجھ اٹھانے پر تیار ہوجائےمگر نبیِ کریم ﷺ کالایا ہوا دین عورت کی حیثیت سے ہی اسے ساری عزتیں اور حقوق دیتا ہے اور وہی ذمہ داریاں اس پر عائد کی جو خودفطرت نے اس کے سپرد کی ہے۔