عمران خان کی شکست کے اسباب
مغربی دُنیا کی جمہوری طرزِ حکومت میں سیاسی پارٹیاں کاؤنٹ ہوتی ہیں جبکہ ہمارے مشرق میں سیاسی پارٹیاں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) میں فوکس نواز (شریف) پر ہے۔ جے یو آئی (ایف) میں فضل الرحمن کا نام چلتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی میں ”شہدا“ کا دور دورہ ہے۔…… یک نہ شد دو شد…… ذوالفقار علی بھٹو کو تختہئ دار پر کیوں کھینچا گیا، اس سوال کا جواب جمہور کے پاس نہیں۔ لیکن جب اس پارٹی کی وارث بے نظیر بھٹو بنیں تو انہوں نے اپنے والد کو شہید کا خطاب عطا کیا اور جنرل ضیا الحق ان کی نظر میں قاتل اور آمر ٹھہرا۔ اور جب وہ خود بھی راولپنڈی میں اپنی وین سے سر باہر نکال کر عوام کے جذب و جنوں کا جواب دیتی ہوئی کسی گولی کا نشانہ بنی تھیں تو وہ بھی شہید قرار دی گئیں۔ان کے قاتل کون تھے، یہ ان کے شوہر نامدار بھی جو ”شہید محترمہ“ کے بعد پاکستان کے قصرِ صدارت میں جاگزیں ہوئے اور پانچ برس تک سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ یہ تحقیقات کرانے سے قاصر رہے کہ ان کی زوجہ محترمہ کو کس نے قتل کیا تھا۔یہ پیپلزپارٹی کی دوسری شہادت تھی، فوج میں اگر کسی کو دو بار ”ستارہئ جرات“ کا اعزاز کسی جنگ میں عطا ہوتا ہے تو اس کو ”ایس جے اینڈ بار“ (S J&Bar) کہا جاتا ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی ”شہید اینڈ بار“ (Shaheed&Bar) والی سیاسی پارٹی کہلائے گی۔
پاکستان کی دوسری چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں ابھی ”شہادت“ کے اعزاز سے ”محروم“ ہیں …… اور خدا ان کو محروم ہی رکھے۔
ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد
پاکستان تحریک انصاف(PTI) کے ساتھ ابھی تک کسی نام کا لاحقہ نہیں لگا وگرنہ وہ بھی نون، ف اور ق وغیرہ کی فہرست میں شامل ہو جاتی۔ لیکن ہر پاکستانی جانتا ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔پی ٹی آئی گویا عمران خان کی مثنیٰ(Duplicate) ہے۔ اگر عمران خان کو PTI سے نکال دیا جائے تو باقی جو کچھ بچے گا اسے صفر سے ضرب دی جا سکتی ہے۔عمران خان کا یہ اعزاز لاثانی ہے کہ وہ دُنیا بھر میں پہلے کرکٹ کے حوالے سے مشہور ہوئے لیکن پھر جب وزیراعظم پاکستان بن گئے تو ساری دُنیا ایک سال تک ان کو کرکٹر بشکل وزیراعظم (Cricketer turned Prime minister) لکھتی،بولتی اور سمجھتی آئی۔ ان کو خود مختار وزیراعظم کہلانے میں پورا ایک سال لگ گیا…… حفیظ جالندھری کی زبان میں عمران کہہ سکتے ہیں:
حفیظ اہل ِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
3مارچ کو اسلام آباد کے سینیٹ الیکشن میں جو نتیجہ آیا اس کو3مارچ سے تین ہفتے پہلے ہی اتنی شہرت(Hype) حاصل ہو گئی تھی کہ3مارچ کو جب یوسف رضا گیلانی جیتے اور حفیظ شیخ ہارے تو میڈیا نے اُسے ”گیلانی زلزلہ“ کے نام سے موسوم کیا۔ حفیظ شیخ کی ہار کو عمران خان کی ہار کا نام دیا گیا لیکن یہ اگرچہ نصف سچ تھا تو نصف جھوٹ بھی تھا اور اس ”نصف“ کا ”کَٹّی کَٹاّ“ آج کے اعتماد کے ووٹ میں ہمارے سامنے آ جائے گا۔…… لیکن مَیں نے کئی بار یہ سوچا ہے کہ2018ء کے عام الیکشنوں میں اگر عمران خان جیت گیا تھا تو ایک بڑا سیاسی ”اَپ سیٹ“ تھا اور اگر 3تاریخ کو عمران خان سینیٹ کی سیٹ سے ہار گیا ہے تو کیا یہ ہار2018ء کے الیکشن کی جیت کے برابر رکھی جا سکتی ہے؟…… مَیں کوئی ایسا سیاسی تجزیہ کار نہیں جو ہر شب ٹی وی سکرین پر آ کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی سٹرٹیجک سیاسی تجزیہ گوئی کا مظاہرہ کرنے میں دلائل کے انبار اور چرب زبانی کے طومار باندھ دیتا ہے۔مَیں اگر ایک عام پاکستانی کی نظر سے عمران خان کی گزشتہ اڑھائی سالہ سیاسی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہوں تو درج ذیل اشاریئے عمرانی شکست کا باعث معلوم ہوتے ہیں۔
عمران خان کی پہلی وجہ ِ شکست یہ ہے کہ وہ جن عوام کے ارمانوں کے تخت پر بیٹھ کر حکومت میں آئے تھے ان کی نفسیات کا کما حقہ ادراک نہ کر سکے۔3مارچ کو سینیٹ کی اسلام آباد نشست ہارنے کا جواز انہوں نے4مارچ کو اپنی شام پونے سات بجے والی تقریر میں کیا جس کا دورانیہ 45،46 منٹ تھا۔اس دورانیئے میں پہلے 30منٹ تو وہ وہی بھاشن دیتے رہے جو وہ کئی برسوں سے دے رہے ہیں۔ان کے دلائل کے الفاظ اور مرکبات بھی وہی تھے جو وہ ماضی میں ایک تسلسل سے دیتے چلے آئے ہیں اور جن کو عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ تبھی تو وہ 3مارچ کا سینیٹ الیکشن ہارے تھے۔ اخلاق کے جس بلند و بالا پلیٹ فارم کا عمران خان ڈھنڈورا پیٹتے رہے ہیں وہ من کی دُنیا میں شاید قابل ِ اعتناء تو ہو لیکن عوام کی اکثریت تن کی دُنیا میں رہتی ہے۔اس اکثریت کو پند و وعظ اور ہائی مارل گراؤنڈ کا بھاشن دینا بالکل فضول ہے۔اس کے لئے پیغمبرانہ صفات درکار ہیں جو عمران خان میں نہیں۔ پیغمبر مادر زاد ہوتا ہے اور عمران خان مادر زاد پیغمبر نہیں۔ اس لئے ان کو مدینہ کی ریاست کا نعرہ نہیں لگانا چاہیے۔ مدینہ کی ریاست ایک پیغمبرانہ ہائی مارل گراؤنڈ ہے، جبکہ عمران خان جن عوام کے نمائندے ہیں ان کا نعرہ یہ ہے:
پیٹ نہ پیاّں روٹیاں
تے سبھے گلاّں کھوٹیاں
یا نظیر اکبر آبادی کے الفاظ میں عوام کا کردار یہ ہے:
پوچھا کسی نے جا کے اک کامل فقیر سے
یہ مہرو ماہ حق نے بنائے ہیں کس لئے؟
بولا گدا کہ:”بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو چاند سمجھیں، نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو سب نظر آتی ہیں روٹیاں!“
میری نظر میں عمران خان کی دو باتیں ایسے دو جرائم ہیں جو ناقابلِ معافی ہیں …… یعنی ایک مہنگائی اور دوسرے تنخواہ دار طبقے کو تین سال تک ایک ہی تنخواہ پر منجمد رکھنا……عوام شاید یہ بوجھ برداشت کر لیتے اور عمران خانی مواعظ کا تلخ گھونٹ بھی نگل جاتے اگر اشیائے ضروریہ کے نرخ بھی ”منجمد“ کر دیئے جاتے۔ تنخواہ دار طبقے میں ملک کے سیکیورٹی ادارے کے زن و شو بھی شامل ہیں۔ اگر مہنگائی 8،9 فی صد ماہانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہو اور ملازمین ِ سرکار کی تنخواہ(اور پنشن) ایک ہی جگہ جم کر رہ جائے تو اس ملازم طبقے کا حالِ زار دیدنی ہو گا۔عمران خان کرپشن کے خلاف اپنی کاوشوں کو ”جہاد“ کا نام دیتے ہیں لیکن مہنگائی کا عفریت بھی اگر ان کی حکومت میں حجرہ شاہ مقیم کی گلیوں میں دندناتا پھرے تو پھر اگر اس کاروبارِ جہاد میں گلیاں سونی نہ ہوں گی تو کیا شاد و آباد ہوں گی؟
پی ٹی آئی والوں میں کیا کوئی ایک آدمی/ وزیر/ مشیر بھی ایسا صاحب ِ بصیرت نہ تھا جو خان صاحب کو یہ سمجھاتا کہ لوگ جب تنگ آ جاتے ہیں تو جنگ کی نوبت آ جاتی ہے۔ اور اس سینیٹ الیکشن میں ایسا ہی ہوا۔وہ17اراکین ِ قومی اسمبلی جنہوں نے پی ٹی آئی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا وہ انہی ”بجنگ آمد“ لوگوں کے نمائندگان تھے!
دوسری وجہ جس نے حفیظ شیخ کو ہرایا وہ پی ٹی آئی میں الیکٹ ایبل (Electable) حضرات کی ریل پیل تھی جو جولائی 2018ء میں دھڑا دھڑ تھوک کے حساب سے پارٹی میں شریک کر لئے گئے۔ اگر پانی کی صاف بالٹی میں ایک قطرہ پیشاب ڈال دیا جائے تو ساری بالٹی ناپاک نہیں ہو گی تو اور کیا ہو گا؟…… الیکٹ ایبل حضرات کی کئی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مالدار ہوتے ہیں۔ ”مال“ کے بغیر الیکشن نہیں لڑا جا سکتا۔ اور جب کوئی شخص الیکٹ ایبل بن جاتا ہے تو وہ اپنا لگایا ہوا سرمایہ واپس کیوں نہیں لے گا؟ آپ اسے قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے۔ عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی ”کرپشن مٹاؤ“ کا نعرہ حرزِ جاں بنا لیا۔…… یہ نعرہ بالکل غلط تھا…… الیکٹ ایبل حضرات ایک ”مجبور مافیا“ ہے۔ وہ لگاتا ہے تو واپس بھی لیتا ہے۔ وہ علاقے کے تھانیدار اور پٹواری کا ”اَن داتا“ بھی ہوتا ہے۔ اس کے عزیز و اقربا CSS کر کے بیورو کریٹ بھی بنتے ہیں، وہ سرکاری اراضی پر قبضہ بھی کرتا ہے اور وہ اقتدار کے ایوانوں میں اپنی مرضی سے گھومتا پھرتا بھی ہے…… عمران خان نے اس ”مجبور مافیا“ کا خیال نہ کیا تو اس نے بھی اپنا سرمایہ ”کسی اور جگہ“ لگانے کا ارادہ کر لیا۔
اگر عمران خان کو آج اعتماد کا ووٹ مل گیا تو انہیں اپنی حکمرانی کی حکمت ِ عملی 180ڈگری معکوس سمت میں ڈالنی ہو گی۔…… اگر ایسا ہوا تو تبھی ”نیا پاکستان“ بنے گا اور تبھی ”تبدیلی“ بھی آئے گی وگرنہ آپ کو حزبِ اختلاف میں بیٹھنا پڑے گا۔ اور جب آپ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گے تو پھر آپ کو معلوم ہو گا کہ الیکٹ ابیل سے کیسے ڈیل کرنی ہے اور عوام کی روزی روٹی کے مسئلے کو باقی تمام مسائل پر فوقیت کیسے دینی ہے!