آرون بشنیل اور ہم
لاشوں کے ڈھیر۔ چہار جانب لاشوں کے ڈھیر ہیں عمارتیں بموں سے چٹیل میدان بن چکی ہیں اُٹھتا ہوا دھواں ہے عمارتوں کے ملبے پر بیٹھے لوگ سر پکڑے گریہ زار ہیں خواتین اپنے بچوں کی تلاش میں ہیں سسکیاں ہیں آہیں ہیں فریادیں اور بے کسی ہے یہ مناظر فلسطین کی گلیوں کے ہیں ایسے منظر روزانہ ہی دیکھنے کو ملتے ہیں اور مسلسل کئی ماہ سے یہ سلسلہ دراز ہوتے یہاں تک آپہنچا ہے۔
اسرائیلی درندگی کا زور بے گناہ نہتے فلسطینیوں پر چل رہا ہے کوئی روکنے والا نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی مددگار نہیں ایک اللہ ہے، لیکن قدرت کے اپنے قانون ہیں قدرت معصوم فلسطینیوں کو بے لگام یہودیوں کے ہاتھوں قتل ہوتا دیکھ رہی ہے اور یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ کوئی ان کی مدد کو نہیں پہنچ رہا قدرت سب کے ساتھ انصاف کرنے والی ہے ظالم اور مظلوم سب کے ساتھ انصاف۔قدرت ظالموں کو بھی انصاف کے ساتھ نیست و نابود کرے گی، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کہیں ہمارا شمار بھی تو ظالموں میں نہیں کہ ہم بھی تو بڑھ کر اسرائیلی وحشیوں کو روک نہیں رہے ہم ڈر رہے ہیں اور فلسطینی دنیا کی بہادر قوم ثابت ہوئی ہے جو تہی دست و داماں ہے اور پھر بھی ایٹمی قوت کے حامل یہودیوں کے سامنے سینہ سپر ہے کتنے بچے شہید ہوگئے کتنی مائیں لہو رو گئیں کتنے جوانوں نے جوانمردی سے لڑتے ہوئے شہادت کا عظیم مرتبہ پایا اوردنیا کے طاقتور ممالک کی حمایت سے اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے، لیکن فلسطینی کہ جو حق پر ڈٹے ہوئے ہیں جھکے نہیں ٹوٹے نہیں ان کے سچے جذبوں کو مات نہیں یہ وقت کے فرعونوں کے سامنے پورے حوصلے سے کھڑے ہیں یہ مقابلہ کررہے ہیں پیٹھ دکھا کر بھاگے نہیں اور دنیا کے بزدل یہودی کیا بہادری دکھا رہے ہیں کہ عام شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے امداد کے منتظر فلسطینیوں پر حملہ کردیا گیا ایسے بزدل یہودیوں پر تو تھوکنا بھی کسر شان ہے اور لائق تحسین ہم بھی نہیں ہیں معاف کیجئے گا ہم سے وہ امریکی اچھا جس نے فلسطینیوں کے قتل عام پر احتجاجاً خود کو آگ لگا لی یہ نوجوان امریکی فضائیہ کا ایئرمین 25 سالہ اہلکارآرون بشنیل تھا، جس نے غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں اور امریکیوں کی سنگدلی اور بے حسی کے خلاف احتجاج کرتے امریکہ میں اسرائیلی سفارتخانے کے سامنے غزہ میں اسرائیلی فوج کی جنگی جرائم میں شہریوں کے قتل عام اور نسل کشی کے خلاف خود سوزی کی یہ امریکی فوجی فلسطین آزاد کرو کے نعرے لگاتا رہا اور یہ بھی کہہ رہا تھا کہ وہ نسل کشی کے اقدام میں مزید شریک نہیں ہو گا اسلام میں خود کشی کو حرام عمل قرار دیا گیا ہے اور کوئی کافر جنت کاحقدار بھی نہیں، لیکن خدائے بزرگ وبرتر اگر اسے جنت نصیب نہیں کرے گا تو دوززخ کی آگ بھی شائد اسکے حصے میں نہ آئے کہ اس نے پیغمبروں کی سرزمین پر یہودیوں کی۔
طرف سے برپا کی گئی قیامت پر احتجاجاً یہ عمل کیا ہے اس امریکی کے لئے شاید اللہ کی ذات کچھ اور معاملہ فرمائے کہ اللہ سب سے بڑا مہربان ہے اس امریکی فوجی کے مقابلے میں عالم اسلام کا کردار کیا ہے؟ بھارت سے سرکاری سطح پر اچھی تنخواہوں پر فلسطینیوں کے قتل عام کے لئے بھارتی شہری اسرائیل بھیجے جارہے ہیں اور مسلمان تو جذبہ جہاد کے پیش نظر بھی فلسطینیوں کی امداد کو نہیں پہنچے اور جہاد۔کہ جس کا باقاعدہ حکم ہے جسے دنیا کے طاقتوروں نے دہشت گردی سے تعبیر کررکھا ہے دنیا جانتی ہے بھارت دہشت گردوں کاسرپرست ہے امریکہ خود بڑا دہشت گرد ہے، جس نے اسرائیل کی دہشت گردی کی سرپرستی کرتے ہوئے اپنے بحری بیڑے روانہ کر دئیے اور جدید ترین خطرناک اسلحہ بھی فلسطینیوں کے قتل عام کے لئے دھڑا دھڑ اسرائیل بھیجنا شروع کردیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ہمارے اسلامی بھائی کہتے ہیں کوئی صلاح الدین ایوبی آئے مسلمانوں کی جیسی خستہ حالت ہے جیسے یہ کمزور اور ڈرپوک ہوچکے ہیں کوئی صلاح الدین ایوبی کیا آئے گا کہ صلاح الدین ایوبی تو ایک ہی تھا میں کہتا ہوں کوئی ہٹلر ہی آئے جس کی نگاہِ بینا یہودیوں کی پست ذہنی اور طبیعت کی نجاست کا ادراک کرچکی تھی کہ کس قدر غلیظ ترین ہیں اس لئے اس نے یہودیوں کے قتل عام کے لئے باقاعدہ کچھ وقت وقف کر دیا کہ اب وہ صرف یہودیوں کا خاتمہ کرے گا جو یہودی ہٹلر سے بچ گئے تھے ان کے لئے ہٹلر کہہ گیا ہوا ہے کہ انہیں اِس لئے چھوڑا ہے کہ تاریخ بتاسکے کہ میں نے یہودیوں کو کیوں مارااورآج تاریخ بتارہی ہے کہ جو یہودی ہسپتالوں میں پڑے زخمیوں پر گولے داغ دے جو مساجد،چرچ، پناہ گزینوں پر آگ اور باروود برسا دے جو ہجرت کرنے والوں کو نہ چھوڑے جو امداد کے منتظر فلسطینیوں پر حملہ کردے جو بچوں خواتین کو نہ بخشے گلیوں میں جاتے نہتے نو عمر بچوں کو فائر کرکے شہید کردے جو سول آبادی پر بموں کی بارش کردے ایسے وحشی کسی رحم کے قابل نہیں مسلمان کہ جنہیں نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیر خواہی اخلاص کا درس دیا امن اور اخوت کا پیغام دیا یہ مخلص اور سادہ لوح مسلمان رہے
خیر کی بات کرتے یہ اس بات کو بھول گئے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارک میں وقت وصال چراغ جلانے کے لئے تیل نہیں تھا لیکن دیواروں پر سات سے نو تلواریں لٹکی ہوئی تھیں قرآن کریم بھی کافروں کے مقابلہ میں ہمیں اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیتا ہے تاکہ کافروں پر دھاک بٹھائی جا سکے لیکن نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اور قرآن کریم سے مسلمانوں نے رہنمائی حاصل نہیں کی اللہ کریم نے مسلمانوں کو ہر طرح کے وسائل سے مالامال کررکھا ہے، لیکن مسلمان اپنے دفاع کو مضبوط نہ کرسکے یہ معصوم لوگ سمجھتے رہے کہ ہم امن کے داعی ہیں کوئی ہمیں تنگ کیوں کرے گا انہیں معلوم ہونا چاہئے تھاکہ امن کا پیامبر مسلمان ہے صیہونی تو روز ازل سے خونریزی پر اترے ہوئے ہیں ایسے خونخوار درندے کی سرکوبی کے لئے کوئی تیاری ہونی چاہئے تھی آج عالمی سطح پر مسلمانوں کی کوئی مذمت کارگر نہیں ہے اور اسرائیلی کسی قانون قاعدے کو خاطر میں نہیں لارہا،بلکہ دنیا میں دنیا میں اس وقت ایک ہی قانون ہے طاقت کا اس لئے مسلمانوں کو اپنی طاقت میں اضافہ کرکے اپنی فوجی قوت کو بڑھاتے ہوئے اپنے دفاع کو مضبوط کرنا ہوگا اور اپنے گھوڑے،یعنی آج کے ایٹمی صلاحیت کاسامان حرب تیار کرنا ہوگا جز اسکے اب کوئی چارہ نہیں۔