برصغیر پاک و ہند کو برطانوی سامراج سے آزادی دلانے میں مولانا ظفر علی خان اور ان کے اخبار روزنامہ ”زمیندار“ نے ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ایک طرف مولانا نے اپنی روح پرور خطابت اور انقلابی شاعری سے اہل ہند کی عروق مردہ میں عزم و عمل کی بجلیاں پیدا کیں تو دوسری طرف زمیندار کی ادارتی تحریروں نے قومِ مسلم کا سیاسی شعور بالا وبلند کیا۔”زمیندار“ صرف خبروں ہی کی ترسیل کا ذریعہ نہ تھا، بلکہ انگریز کی سازشوں اور ہندوﺅں کی ریشہ دوانیوں کو بھی بے نقاب کرتا تھا۔
آزادی کے بعد جب تاریخ اور سیاست کے دوائر میں تحقیق کا عمل فروغ پانے لگا تو محققین کے لئے ”زمیندار“ تک رسائی مشکل ہوگئی۔ایک تو مرورِ ایام سے ”زمیندار“ کے اوراق کہنگی کا شکار ہونے لگے۔دوسرے، تمام فائلوں کا کسی ایک جگہ ملناممکن نہ رہا۔اصل میں تو ایسے قیمتی سرمائے کو عام طور پر حکومتیں ہی اپنے وسیع وسائل سے محفوظ رکھ سکتی ہیں، لیکن پاکستانی حکومتوںکو تو اپنا وجود ہی برقرار رکھنا مشکل تھا، وہ اِدھر کیا توجہ دیتیں۔بالآخر مولانا ظفر علی خان کے خانوادے ہی نے اس بیش قیمت قومی ورثے کی حفاظت کا اہتمام کیا۔مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کا قیام عمل میں لایا گیا،جس نے اولاً مولاناکی تقریباً تمام چھوٹی بڑی کتابیں شائع کیں۔ثانیاً مولانا کی شخصیت اور کارناموں پر لکھی گئی کتابوں کی بھی اشاعت ممکن بنائی۔ثالثاً ”زمیندار“ کے اداریوںاور شذرات کی ترتیب و تدوین کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لئے ممتاز مورخ جناب پروفیسر احمد سعید سے درخواست کی گئی۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف مو¿رخ مو¿لف اور تحقیق کے تقاضوں سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کی مساعی ¿ جمیلہ سے ادارتی تحریروں کا پہلا مجموعہ (دورانیہ جنوری تا اپریل 1923ئ) ستمبر2012ءمیں شائع ہوا۔علمی برادری نے ٹرسٹ کی طرف سے شائع ہونے والی اس پہلی تحقیقی کاوش کو بنظر ِ استحصان دیکھا۔
حال ہی میں شائع ہونے والی دوسری جلد کا عنوان بھی وہی ہے: ” روزنامہ زمیندار لاہور۔ مقالہ ہائے افتتاحیہ و شذرات(مئی تا اگست 1923ئ)“۔ مقالہ افتتاحیہ کو آج کی دنیا ”اداریہ“ کو Editorial اور ”شذرات“ کو Editorial Notes کہتی ہے۔ان تحریروں میں معاصر دنیا کے کسی بھی اہم سماجی،سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی مسئلے پر ادارے کی طرف سے رائے زنی ہوتی ہے۔اسی سے آگے رائے عامہ تشکیل پاتی ہے۔ ویسے تو کبھی اخبار کا ایڈیٹر خود بھی اداریہ لکھتا ہے لیکن عام طور پر چند افراد کا بورڈ یہ فریضہ ادا کرتا ہے۔ پروفیسر احمد سعید کے بقول اس دور میں وجاہت حسین جھنجھانوی اور عبداللہ عمادی ایسے دو اصحاب علم ”زمیندار“ کا اداریہ اور شذرات لکھتے تھے۔ اداریے اور ادارتی نوٹس کا مزاج سراسر منطقی اور استدلالی ہوتا ہے۔ جذباتیت سے گریز کیا جاتا ہے۔ مولانا ظفر علی خان اپنی ذات میں بہت اچھے خطیب اور شاعر تھے،لیکن اپنے اخبار کو انہوں نے خالص صحافتی اقدار کا ترجمان بنایا۔ حالانکہ وہ ماحول بہت شور انگیز تھا۔ ہندوستانی اقوام حاکم قوم سے بھی مصروف جہاد رہتی تھیں اور ایک دوسرے سے بھی دست و گریبان ہو جاتی تھیں۔ مسلمانوں کے خلاف تو کبھی کبھی انگریز اور ہندو باہم شیر و شکر بھی ہوجاتے تھے۔ان حالات میں مسلم مفادات کے محافظ اخبار کا اپنے اداریوں میں سنجیدگی، متانت اور استدلال کا دامن تھامے رکھنا بہت مشکل تھا،لیکن داد دیجئے مولانا ظفر علی خان اور ان کے ادارتی عملے کو کہ انہوں نے اداریہ نویسی میں کمال توازن برقرار رکھا۔
سارے برطانوی دور میں ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان ٹکراﺅ کا ایک بڑا سبب ”ذبیحہ گاﺅ“ کا مسئلہ رہا۔کئی دفعہ اس حوالے سے فسادات کی ایسی آگ بھڑکی کہ جس میں دونوں اطراف کے کئی لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے رہے۔زیر نظر کتاب میں شامل کئی اداریوں کا موضوع یہی مسئلہ ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ فرمایئے جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس آتش بار فضا میں اداریہ نویس کتنامحتاط لہجہ اختیار کرتا تھا:
سوال تو یہ ہے کہ ہندو کیوں مسلمانوں کو بار بار مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ گاﺅ کشی کو ترک کردیں۔ہندوﺅں کے مذہب میں گائے کے احترام کا حکم ہوگا۔ہم انہیں مجبور نہیں کرتے کہ وہ اسے استعمال کریں۔ ہمارے مذہب نے گائے کو حلال و طیب قرار دیا ہے۔ہندو کیوں اس بات کے متمنی ہیں کہ ہم اسے حلال و طیب نہ سمجھیں یا اس کے استعمال سے دست بردار ہو جائیں؟ ہندو مذہبی رواداری اور مذہبی آزادی کے بڑے بڑے دعوے کیاکرتے ہیں اور بندے ماترم تو مسلمانوں کو الزام دیا کرتا ہے کہ انہوں نے کبھی ہندوﺅں کی مذہبی آزادی کو صحیح طور پر تسلیم نہیں کیا لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ اپنے ایک مذہبی جذبے کو لے کر دوسروں کے مذہبی عقائد کے خلاف انہیں اس کا پابند بنانا مذہبی آزادی کی صریح توہین نہیں ہے؟ ہندو کہتے ہیں کہ گائے کو ذبح ہوتے دیکھ کر ان کی دل آزاری ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح مسلمان بھی ہندوﺅں کی بیسیوں ایسی باتیں پیش کرسکتے ہیں جن سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی سچا توحید پرست ایک لحظہ کے لئے بھی اس امر کو برداشت نہیں کرسکتا کہ بنی نوع انسان اپنے ہاتھ کے تراشے ہوئے بتوں کو نفع و ضرر اور خیر و شر کا مالک سمجھے۔ ہندوﺅں کی بت پرستی مسلمانوں کے لئے انتہائی دل آزاری کا باعث ہے یا باقی معاملات کو چھوڑ کر اسی گائے کے مسئلہ کو لیجئے۔ایک مسلمان کا یہ اعتقاد ہے کہ خدا نے گائے کو حلال و طیب قرار دیا ہے۔اگر کوئی شخص اس سے وہ تمام فائدے میں حارج ہونا چاہتا ہے جن کی شریعت ِ اسلامیہ نے اجازت دی ہے تو یقینا مسلمان کی دل آزاری ہوتی ہے، لیکن کسی مسلمان نے آج تک اپنی دل آزاری کا عذر پیش کرکے کسی ہندو کو اس کے مذہب کے خلاف کسی فعل پر مجبور نہیں کیا۔اس کے خلاف ہندوﺅں کو دیکھئے وہ زبان سے مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن عمل کی یہ حالت ہے کہ شریعتِ اسلامیہ کے پابندوں کو گاﺅ کشی کے معاملہ میں ہر حیثیت سے اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں، صرف اس لئے کہ اس سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے۔کیا یہ مذہبی رواداری کی کھلی ہوئی تحقیر نہیں ہے؟(ص62-63:)
ایک اداریہ ”غداراسلام کی اسلام سوز حرکات“ کے عنوان سے شامل اشاعت ہے، اس میں خلافت عثمانیہ کے غدار گورنر مکہ حسین کی حرکتوں کا نوٹس لیا گیا ہے: ” مکہ میں شریف حسین کی مخالف اسلام حرکتیں روز افزوں ہو رہی ہیں۔ حرمین شریفین کی بے حرمتی اور کعبتہ اللہ اور روضہ¿ رسول سے مسلمانان عالم ِ کی بے دخلی کا پیمانہ نہایت سرعت سے لبریز ہو رہاہے۔ کراچی میں پریشان حال اور بے سامان حاجیوں کا جو قافلہ واپس پہنچا ہے اس نے شریف ملعون کے انسانیت سوز مظالم کی جگر خراش داستانیں سنائی ہیں“ (ص481:)
فاضل مرتب جناب پروفیسر احمد سعید کے بقول: زیر نظر کتاب کی دوسری جلد میں کل93اداریے اور202 شذرات شامل ہیں۔ کل اداریوں میں سے33بیرون ہند سے متعلق ہیں جن میں مصر،عراق، ترکی، جزیرة العرب، یونان، وسط یورپ، انگلستان، فرانس، روس، پولینڈ، یورپ، مجلس مصالحت ِ لوزان اور بین الاقوامی مزدور تنظیم کے موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ بعض شذرات میں بھی بیرون ہند معاملات کا تذکرہ موجود ہے۔ کتاب پر ایک نظر ڈالتے وقت یہ بات آپ شدت سے محسوس کریں گے کہ آج کل کے لکھاریوں بالخصوص مختلف اخبارات کے اداریہ نویس حضرات کے برعکس اس دور کے قلم کاروں کا مطالعہ کس قدر وسیع ہوا کرتا تھا“۔ (صxiv:)
فرہنگ پروفیسر ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی نے تیار کی ہے اور اشاریہ محمد علی چراغ کے تعاون سے ترتیب پایا ہے۔ مرتب نے کتاب کا انتساب رقم کرتے ہوئے اپنے دورِ طالب علمی کی دو ہستیوں کی یاد تازہ کی ہے:
”اپنی مادرِ علمی چشتیہ ہائی سکول لاہور کے گھنٹی بجانے والے محمد حسین اور سائیکلوں کے محافظ عقل دین کے نام“ ۔
532صفحات پر مشتمل اِس نادر دستاویز کی قیمت 800 روپے ہے، جو آج کے ہوشربا مہنگائی کے دور میں کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوتی۔ ہم ٹرسٹ کے منتظمین کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کی یاد تازہ رکھنے کے لئے بہترین راستہ اختیار کیا ہے۔ تحریک آزادی¿ ہند کی تاریخ رقم کرتے ہوئے ہمارا مو¿رخ ”زمیندار“ کو کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتا! ٭