جدید ٹیکنالوجی سے پیداوارایک ہزارمن فی ایکڑ بڑھ سکتی ہے
لاہور(اے پی پی)کاشتکار کماد کی جدید پیداواری ٹیکنا لوجی اپنا کر اوسط پیداوار600من فی ایکڑسے بڑھاکر 1600من فی ایکٹر حاصل کرسکتے ہیں۔محکمہ زراعت پنجاب کے ترجمان کے مطابقکماد کی فصل سے اچھی پیداوار کے حصول کے لئے اثرانداز کئی عوامل میں سے حملہ آور کیڑوں پر کنٹرول حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ اگر ان کیڑوں کا بروقت تدارک نہ کیا جائے تو یہ پیداوار میں بہت بڑی کمی کا سبب بنتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ زہروں اور سپرے کے استعمال کے ساتھ ساتھ ہر 15دن پانی بھی ان کیڑوں کے خاتمے کا باعث بنتاہے۔ انہوںنے کہاکہ کماد کے ان ضرر رساں کیڑوں میں دیمک، جڑ، تنے اور چوٹی کے گڑوویں/بورر، گرداسپوری بورر، گھوڑا مکھی، سفید مکھی اور مائٹس شامل ہیں۔انہوںنے کہاکہ چوٹی کا گڑوواں /بورر کماد کی فصل پر حملہ آور ہونے والا اہم کیڑا ہے ۔سنڈی کا رنگ سفید اور پیٹ پر لمبے رخ ایک گہرے بھورے رنگ کی دھاری ہوتی ہے۔ گنے کی چوٹی کی طرف شاخوں کا گچھا سا بن جاتا ہے۔ سردےوں مےں ےہ کےڑا سنڈی کی حالت مےں گنے کی چوٹی مےں ہوتا ہے۔
تنے کے بورر کی سنڈی کا رنگ مٹےالا سفےد ےا زرد اور جسم کے اوپر بھورے رنگ کی پانچ دھارےاں ہوتی ہےں۔ سردیاں سنڈی کی حالت میںمڈھوں مےں گزارتا ہے۔ سنڈی جولائی مےں تنے مےں سرنگےںبناتی ہے اور ےہ عمل ستمبراکتوبر تک جاری رہتا ہے۔ گنے کے پہلو مےںشاخےں نکل آتی ہےں۔ خشک سالی مےں نقصان زےادہ ہوتا ہے۔جڑ کے بورر کی سنڈی کا رنگ سفید دودھیا، سر کا رنگ زرد بھورا اور جسم جھری دار ہوتا ہے۔یہ کیڑا موسم سرما سنڈی کی حالت میں مڈھوں میں گزارتا ہے۔ سنڈی زمین کی سطح کے برابر مڈھ کے تنے میں سوراخ کرکے داخل ہوتی ہے اور سرنگ بناتی ہوئی نیچے چلی جاتی ہے۔خشک سالی میں نقصان زیادہ ہوتاہے۔ انہوں نے کہا کے کماد پر دو طرح کی مائٹس یا جوﺅں کا حملہ ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک سرخ اور دوسرے سفید رنگ کی ہوتی ہے۔ سر خ مائٹس مئی تا جولائی کے خشک جبکہ سفید مائٹس کا حملہ اگست ستمبر کے نمی والے مہینوں میںزیادہ ہوتا ہے۔ سفید جوئیںپتوں کی نچلی سطح پر سفید جالے بنا کر رہتی ہیں۔ پتوں پر ترتیب وار متوازی قطاروں میں سفید دھبے نظر آتے ہیں یہ بہت سخت جان ہوتی ہیں۔ جالے پرزہر بھی کم ہی اثر کرتا ہے۔ ان جوﺅں کے انسداد کے لئے ضروری ہے کہ فصل کو بروقت پانی لگائیں اور کھیتوں کو جڑی بوٹیوں سے صاف رکھیں اور حملہ شدہ پتوں کو ضائع کر دیں۔