دوسرا ٹیسٹ ہار گئے،اب تیسرا؟
پاکستان کی کرکٹ ٹیم دوسرا ٹیسٹ بہت ’’باعزت‘‘ طریقے سے ہار گئی اور ویسٹ انڈیز کی ’’بی‘‘ ٹیم نے اس ’’اے‘‘ کلاس کو بری طرح شکست سے دوچار کیا، 188 رنز بنا کر میچ جیتنے کی خواہش کرنے والے کل81رنز بنا سکے اور یوں106رنز کے بڑے فرق سے شکست کھا کر سیریز ایک ایک سے برابر کر لی اور اب تیسرا ٹیسٹ فیصلہ کن اور فائنل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ توقع کے عین مطابق ٹیسٹ کے اختتام سے پہلے ہی ’’ماہرین‘‘ نے اپنے اپنے ’’تعصب‘‘ اور ’’نظریات‘‘ کے حوالے سے ملامت بھی شروع کر دی ہے اور ہر کوئی اپنے تئیں ماہر بنا ہوا ہے۔ ایسے حضرات بھی شامل ہیں،جنہوں نے کبھی ایک ٹیسٹ نہیں کھیلا اور وہ بھی جو کرکٹ کے افق پر تو چمکے،لیکن بورڈ کے دفتر کی راہ نہ دیکھ سکے۔یوں بھی قابض گروپ اور ’’پیر تسمہ پا‘‘ مافیا ایک بغل سے نکل کر دوسری بغل میں آ بیٹھتا ہے۔پاکستان جن گو نا گوں مسائل سے دو چار ہے، ان میں کھیلوں کا شعبہ بھی ہے،فٹ بال تو کبھی اِس قابل ہی نہ جانا گیا کہ ہمارے مُلک کا نام کسی عالمی مقابلے میں آتا، ہم نے سکوائش، ہاکی، کشتی اور کبڈی میں نام پیدا کیا تھا، آج یہ سب کھیل جس مقام پر ہیں سب جانتے ہیں، ہر بار دعوے کئے جاتے ہیں اور فنڈز مانگے جاتے ہیں، ہوتا کچھ بھی نہیں،ہاکی میں ہم عالمی سطح سے مقامی سطح تک چیمپئن رہے، اسے ہمارا قومی کھیل کہا اور جانا گیا،لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہماری ہاکی ٹیم چیمپئن ٹرافی کا حصہ نہیں، جسے ہمارے بزرگ نے ہی شروع کیا تھا، وہ دن ہَوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا۔
بات تو کرکٹ ٹیسٹ کی تھی، دُکھ دوسرے بھی یاد آ گئے، ہم تنقید برائے تنقید کے قائل نہیں اور نہ ہی چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والوں میں سے ہیں کہ ٹیم ایک میچ جیت لے تو اسے سر پر بٹھا لیا جائے اور جب شکست کھائے تو زور سے زمین پر پٹخ دیا جائے،ہمارے نزدیک اعتدال ہی سب سے بڑی دولت ہے اور ٹیم کی کارکردگی پر تبصرہ بھی ’’میرٹ‘‘ ہی کے لحاظ سے ہونا چاہئے۔یہ حقیقت ہے کہ آج پاکستان کی کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز کی جس ٹیم سے نبرد آزما ہے وہ ’’بی‘‘ ٹیم ہے کہ ویسٹ انڈیز کے بیشتر قومی کھلاڑی بھارت کی آئی پی ایل میں کھیل رہے ہیں اس کے باوجود ہم نے پہلا ٹیسٹ مشکل سے جیتا اور دوسرا بری طرح ہار گئے ہیں، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مصباح الحق، یونس خان، بابر علی،اسد شفیق، اظہر علی اور احمد شہزاد جیسے ٹاپ آرڈر کھلاڑی کچھ نہ کر سکے اور سب نے مل کر باؤلروں کی محنت پر پانی پھیر دیا اور باؤلنگ ٹیم کا ردھم میں آ جانا ہمیں راس نہیں آیا۔
ہم کسی تعصب یا تحفظ کے بغیر گزارش کریں گے کہ دوسرے ٹیسٹ میچ میں چیف کوچ سے ٹیم منیجر، کپتان اور سینئر کھلاڑی تک ناکام ہوئے ہیں جبکہ ایسا ہونا نہیں چاہئے تھا۔ یہ ٹھیک اور درست کہ اس ٹیسٹ میں پچ کے حوالے سے ٹاس کی بہت زیادہ اہمیت تھی کہ اس وکٹ پر چوتھی اننگ بہت مشکل تھی،(لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہم ہمت ہار بیٹھے) ویسٹ انڈیز والوں نے بجا طور پر ٹاس جیتا، خوش قسمت ثابت ہوئے اور پہلے خود بیٹنگ کی، تاہم باؤلروں کی محنت اور ردھم میں ہونے کی وجہ سے وہ کوئی بڑا سکور نہ کر سکے، خیال تھا کہ پاکستان کے بیٹسمینوں کو اچھا موقع مل گیا ہے اور وہ کوئی بڑی لیڈ حاصل کر سکیں گے،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا،بھروسہ والے یونس خان اور بابر اعظم بھی کچھ نہ کر سکے، تین چار بیٹسمینوں نے ہمت کر کے81رنز کی لیڈ لے ہی لی۔ یہ فرق بہت کم نظر آ رہا تھا اور جس انداز سے وکٹ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ سکور مشکل ہو گا تاہم ناممکن نہیں، اس کا ثبوت ویسٹ انڈیز والوں نے دیا کہ پاکستان کے ’’اِن فارم‘‘ باؤلروں کا مقابلہ کیا اور سکور کو اس حد تک ضرور لے گئے کہ پاکستان ٹیم کو مشکل ہو، 188رنز کا ہدف مشکل ضرور تھا،لیکن ناممکن نہیں تھا کہ پورے دن کا کھیل باقی تھا اور قریباً80-85اوورز میں اس منزل کو طے کرنا تھا۔
یہاں ایک امر کی طرف توجہ دِلانا ضروری ہے، ٹیلیویژن نے یہ دکھایا کہ آخری روز کا کھیل شروع ہونے سے قبل ویسٹ انڈیز کے کوچز نے اہم باؤلروں کو وکٹ پر کھڑے ہو کر ہدایات دیں، ان کو وہ ’’سپاٹ‘‘ دکھائے جہاں گیند آنا چاہئے تھا اور اسے کھیلنا مشکل ہوتا اور پھر باؤلروں نے ہدایت ہی کے مطابق عمل کیا اور یوں کامیابی حاصل کر لی۔ ویسٹ انڈیز کوچز کا یہ عمل تو دیکھ لیا گیا، تاہم یہاں بیٹھ کر ہمارے علم میں نہیں کہ مکی آرتھر اور ان کے ساتھیوں نے کپتان اور ٹیم کو کیا سکھایا اور کیا ہدایات دیں،اننگ کے آغاز میں احمد شہزاد اور اظہر علی کے انداز سے محسوس ہوتا تھا کہ ٹیم مینجمنٹ کا فیصلہ غالباً ’’سلو اینڈ سٹیڈی‘‘(SLow & Steady) ہے کہ وکٹ پر جم کر کھڑے ہو جاؤ ، سکور بنتے رہیں گے کہ پورا دن پڑا ہے،لیکن ٹِک ٹِک ماسٹر مصباح الحق اور اس سے قبل اظہر علی اپنی یہ مہارت نہ دکھا سکے اور دونوں خوامخواہ کی گیندوں پر آؤٹ ہوئے،جبکہ یونس خان حسب سابق اپنی ’’شغل‘‘ کمزوری کے باعث ایل بی ڈبلیو ہو گئے، دُکھ تو یہ بھی ہے کہ بابر اعظم اور اسد شفیق بھی نہ رُک سکے اور دونوں نے سکور بُک میں انڈہ، انڈہ اپنے نام لکھوا لیا۔
بہرحال ہار جیت ساتھ ساتھ چلتی ہے، ہم تو یہاں شائق اور دیکھنے والے ہیں،جبکہ وہ سب(کپتان+ٹیم مینجمنٹ+کوچ+کھلاڑی) عمل سے گزر رہے تھے اور گزررہے ہیں ان کو کتنا دُکھ ہو گا اس کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے، ہم یقین اور بھروسہ رکھتے ہیں کہ یہ سب آپس میں تبادلہ خیال کر کے خامیوں کو دیکھ کر آئندہ کی حکمت عملی ترتیب دیں گے کہ آخری میچ جیت کر سیریز جیت سکیں۔ مصباح الحق اور یونس خان کو اب ذمہ داری کا بوجھ محسوس کر لینا چاہئے کہ یہ ان دونوں کا آخری میچ ہو گا کہ وہ ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکے ہیں، اسی طرح باقی حضرات کو بھی توبہ کر کے اللہ سے معافی مانگ کر تیاری کرنا چاہئے کہ10مئی سے شروع ہونے والا میچ جیت کر سرخروئی مل سکتی ہے، جہاں تک بورڈ کا سوال ہے تو اس سے اللہ ہی سمجھے گا، ہماری پرانی تجویز ہے کہ ملک میں کراچی سے لے کر مری، ایبٹ آباد اور شمالی علاقہ جات، ملتان اور کراچی، کوئٹہ سمیت دُنیا بھر کے کرکٹ والے ممالک کے انداز پر وکٹیں بنا کر پریکٹس کریں اور ڈومیسٹک سیزن بھی انہی وکٹوں پر کھلائیں کہ ہر قسم کی وکٹ پر کھیلنے کو موقع ملے۔