فیصلہ کے ساٹھ دن
تحریر: شیخ رفاقت عارف
آج کل پاکستان میں نواز شریف اور ان کے خاندان کو پانامہ کی پاداش میں نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ کوئی کہتا ہے ہمارا وزیراعظم چورہے ،کوئی کہتا ہے کہ وہ صادق اور امین نہٰں اور عدلیہ نے یہ لکھ دیا ۔کوئی کہتا ہے کہ لندن فلیٹس کی ملکیت کا وزیر اعظم سے تعلق نہیں ہے۔ حالانکہ پانامہ کی دستاویز شریف فیملی کے کاروبار کا ثبوت دے رہی ہیں اور لندن کے فلیٹس بھی اسی خاندان کی ملکیت ہیں مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ پانامہ کاروبار اور لندن فلیٹس کس رقم سے معرض وجود میں آئے؟
پاناما لیکس میں سامنے آنے والی دو آف شور کمپنیوں، نیلسن اور نیسکول نے لندن کے مہنگے ترین علاقے میے فیئر میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی فیملی کے زیرتصرف فلیٹس انیس سو نوے کی دہائی میں خریدے تھے اور اس کے بعد سے اب تک ان کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
بی بی سی اردو سے حاصل شدہ سرکاری دستاویزات کے مطابق انیس سو نوے کی دہائی سے یہ چار فلیٹس نیسکول اور نیلسن کے نام پرہی ہیں اور ان دونوں کمپنیوں کی ملکیت کااعتراف وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کر چکے ہیں۔پاناما پیپرز میں نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کی ملکیت کے بارے میں انکشاف کے بعد سے پاکستان میں حکمران جماعت کے سربراہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے اور انہی انکشافات کی بنیاد پر حزب اختلاف کی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف، جماعِت اسلا می اور عوامی مسلم لیگ کی درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔
پاکستان میں وزیر اعظم کی فیملی کی طرف سے ان الزامات کے بارے میں جو وضاحتیں اب تک پیش کی گئی ہیں جن میں قطر کے شہزادے کا خط بھی
ہے، اِن کو حزب اختلاف نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور انھیں باہم متضاد قرار دیا ہے۔اسی عمارت میں تیسرے فلیٹ سولہ اے کی خریداری بھی اسی تاریخ کو عمل میں آئی اور یہ فلیٹ بھی نیلسن انٹر پرائز لیمٹڈ ہی نے خریدا۔چوتھا فلیٹ سترہ اے تئیس جولائی سنہ انیس سو چھیانوے کو نیسکول لیمٹڈ نے خریدا۔ اس حوالے سے بی بی سی نے وزیراعظم پاکستان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز سے تحریری طور پر رابطہ کیا تھا اور ان سے ان فلیٹس کی ملکیت اور خریداری کی تاریخ اوران کا موقف جاننے کی کوشش کی۔ لیکن دو ہفتے گزر جانے کے باوجود اْنکی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
حسین نواز کو لکھے گئے خط میں ان سے تھا کہ وہ یہ دعو ٰی کرتے رہے ہیں کہ یہ فلیٹ سنہ 2006 میں خریدے گئے تھے لیکن برطانوی حکومت کے محکمہ لینڈ رجسٹری کے ریکارڈ کے مطابق ان فلیٹس کی ملکیت نوے کی دہائی سے تبدیل نہیں ہوئی ہے،اس حوالے ان کا کیا موقف ہے۔ بی بی سی کی طرف سے پوچھے گئے سوالاتمیں آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کے بارے میں بھی سوال شامل تھا جس میں سب سے اہم بات ان کمپنیوں کی خریداری کی تاریخ کے حوالے سے تھی۔ یہ وہی فلیٹس ہیں جہاں جلا وطنی کی زندگی بسر کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی کو حتمی شکل دی تھی۔ یاد رہے کہ اس سال اپریل میں پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے پاناما پیپرز سامنے آنے کے بعد ایک عوامی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اور کرپشن کے خلاف احتجاج کے طور پرانھوں نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کو جام کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی کمپنیوں اور ان کمپنیوں کو بنانے میں مبینہ طور پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات پرمبنی مقدمے کی سماعت ہوئی اور سماعت میں فیصلہ ہوا کہ اس معاملے پر جے آئی ٹی بنائی جائے جو سات دن کے اندار عمل میں الئی جائے گی جو ساٹھ روز میں فیصلہ سنائے گی اب ایک بار پھر معاملہ لٹکا دیکھائی دیتا ہے۔یعنی قوم کو تاریخ پہ تاریخ کا سامنا ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔