سندھ کی سیاست میں مہاجر فیکٹر

سندھ کی سیاست میں مہاجر فیکٹر
سندھ کی سیاست میں مہاجر فیکٹر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 الیکشن کے قریب آتے ہی سندھ میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہےں۔ پیپلزپارٹی کے لیاقت آباد کراچی میں پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو کے جلسہ عام سے سندھ کی سیاست میں ایک خاص قسم کی ہلچل مچی ہوئی ہے اور گزشتہ رات گئے لیاقت آباد میں ایم کیو ایم پاکستان کے جلسے کے بعد بھرپور پی پی پرلفظی گولہ بارود کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے ۔ان ہر دو جلسوں سے ایک بار پھر مہاجر فیکٹر کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔سندھی اور مہاجرکے نعرہ کو کیش کرانے کی مذموم جسارت کی گئی ہے۔
کراچی سمیت شہری علاقوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگر سندھ میں سیاسی جماعتوں نے قومی بصیرت کا ثبوت نہ دیا تو خدا نہ کرے کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں ایک بار پھر لسانیت عصبیت کی آگ بھڑک جائے گی۔لیاقت آباد میں پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو کے جلسے کے بعد اور اس جلسے میں ایم کیو ایم پاکستان پر مئیر کراچی پر تنقید کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے دونوں دھڑے فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی کے درمیان جو فاصلہ پیدا ہوگیا تھا وہ فاصلہ اچانک سمٹ گیا ہے ، دونوں گروپوں نے گزشتہ رات گئے مل کر لیاقت آباد میں جلسہ کیا ۔ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماو¿ں فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی ،کراچی کے مئیر وسیم اختر اور دیگر رہنماو¿ں نے کھل کر پیپلزپارٹی بلاول بھٹو ،آصف علی زرداری وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ پر سنگین الزامات بھی لگائے۔ ایم کیو ایم پاکستان کا یہ جلسہ کامیاب تھا یا نہیں عوام کی تعداد کتنی تھی میرے نزدیک یہ اھم نہیں ہے۔ میرے لیے تو فکر کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کی لڑائی میں سندھ کی سیاست خصوصاً کراچی اور شہری علاقوں میں ایک بار پھر خطرہ پیدا ہو چلا ہے کہ سندھ کی سیاست میں لسانیت عصبیت کا عنصر شامل ہونے جارہا ہے۔اسی جھلک اندرون سندھ دکھائی دینے لگی ہے ۔
یاد رہے کہ کراچی اور شہری علاقوں سکھر، حیدرآباد، نواب شاہ ،ٹنڈو اللہ یار ،میرپورخاص سمیت شہری علاقوں میں اردو بولنے والوں کی اکثریت کا ووٹ بنک ہے۔ کچھ وقت قبل ایم کیو ایم اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت تھی مگر آج اردو بولنے والوں کا ووٹ بنک تقسیم ہوچکا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان دو گروپوں میں تقسیم ہے ۔مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم حقیقی بھی اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدار ہے مگر اس حقیقت سے آج کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ اردو بولنے والوں کا ووٹ تقسیم ہے اور اسی تقسیم سے پیپلزپارٹی تحریک انصاف مسلم لیگ نواز ایم ایم اے اے این پی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہےں، سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایم ایم اے کراچی کی سیاست میں خاموش سرپرائز دے سکتی ہے ۔ایک وقت میں کراچی کی سیاست میں جماعت اسلامی کی مضبوط گرفت تھی ،کراچی میں بظاہر تو اس وقت پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم میں رسہ کشی جاری ہے مگر ایم ایم اے مسلم لیگ نواز ،اے این پی پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم حقیقی نے بھی کمر کس لی ہے اور بھرپور طور پر میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آٹھ مئی کو مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہبازشریف سندھ کے دورے پرآرہے ہیں ،وہ سندھ میں ایک بڑے جلسے عام سے خطاب کریں گے، دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے بارہ مئی کو گلشن اقبال کراچی میں ایک بڑے جلسے کا اعلان کیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ کراچی کی انتظامیہ گلشن اقبال میں کس جماعت کو جلسے عام کی اجازت دیتی ہے ۔کراچی سمیت پاکستان اور سندھ کی اکثریت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر میدان میں آنا چاہئے لیکن پوائنٹ اسکورنگ کرنے کے بجائے قومی ایشوز کی سیاست کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ سیاسی جماعتیں قومی بصیرت کا ثبوت دیں الیکشن میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انتخاب کا فیصلہ عوام کے ووٹ پر چھوڑ دیا جائے ۔عوام اپنے ووٹ کے ذریعے جس کا انتخاب کریں وہ سب کے لیے قابل قبول ہوگا اور یہی وہ بہتر کام ہے جس سے سندھ کی ہمدردیاں مہاجر کی بجائے پاکستانی شناخت کے نعرے کی بنیاد پر حاصل کی جاسکتی ہیں ۔

۔۔

 نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -