حکومت نے ایمنسٹی سکیم میں اصلاحات مکمل کر لیں، آئی ایم ایف نے مخالفت کر دی، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5400ارب روپے مقرر کرنے کا مطالبہ
کراچی(این این آئی)ایک فیصد دو اور پراپرٹی میں لگا کالادھن سفید کرو، نئی معاشی ٹیم نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں اصلاحات مکمل کرلیں،سکیم کے تحت اثاثے ظاہر کرنے والوں کے کوائف منظرعام پر نہیں لائے جائیں گے۔ذرائع کے مطابق نئی معاشی ٹیم نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں اصلاحات مکمل کرلی ہیں نئی ایمنسٹی اسکیم میں انعامی بانڈز اور بیئرر سرٹیفکیٹ کلیئر نہیں ہوں گے، صرف رجسٹرڈ اور ظاہر کردہ بانڈز اور سرٹیفکیٹس کو ہی سفید دھن تسلیم کیا جائیگا۔ایک فیصد ٹیکس دیں اورپراپرٹی کا کالا دھن سفید کرائیں، 30جون کے بعد پراپرٹی کلیئر کرانے پر2فیصد اور31دسمبر کے بعد4فیصد دینا ہوگا، 30 جون تک اثاثے اور آمدن قانونی کرانے پر5فیصد ٹیکس ہوگا جو30جون کے بعد 10 فیصد اور31 دسمبر کے بعد 20 فیصد ہوجائے گا، سیلز کی رقوم پر3فیصد ٹیکس ہوگا۔بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے سے پہلے بانڈ سرٹیفکیٹ میں تبدیل اورپاکستان منتقل کرنا ہوں گے، بینکوں سے باہرموجود رقوم بینکوں میں ڈپازٹ کرانا ہوں گی، سفید کرایا گیا کالادھن کسی پبلک آفس ہولڈر کو منتقل یا گفٹ نہیں کیا جاسکے گا، غلط بیانی ثابت ہونے پراٹھایا گیا فائدہ کالعدم تصور ہوگا۔دوسری طرف ایف بی آر میں مزید بڑے پیمانے پر تبادلے بھی متوقع ہیں، تمام بڑے عہدوں پر کام کرنے والے افسروں کی فہرستیں تیار کرلی گئی ہیں، ممبر، کمشنر، کلیکٹر سطح کے افسروں کو تبدیل کیا جائیگا۔
ٹیکس ایمنسٹی
اسلام آباد(آن لائن) عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) نے کالادھن سفید کرنے کی اجازت دینے کے لیے ایمنسٹی سکیم کی مخالفت کردی ہے جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5400 ارب روپے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف نے ایمنسٹی اسکیم کی مخالفت کر دی ہے۔ آئی ایم ایف حکام کا کہنا ہے کہ اس سے ٹیکس پیئرز کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور ٹیکس کلچر متاثر ہوتا ہے اور اضافی ریونیو کے لیے ٹیکس اتھارٹیز کی جانب سے شارٹ کٹ ٹول کے طور پر اسے استعمال کیا جاتا ہے نیز اس سے ریونیو کا نقصان ہوتا ہے لہٰذا اس قسم کے اقدامات کے بجائے پائیدار اور طویل المیعاد اقدامات اٹھائے جائیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 5400 ارب روپے کے ٹیکس وصولیوں کے ہدف کو موجودہ حالات میں مشکل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فوڈ آئٹمز پر ٹیکس چھوٹ و رعایت ختم کرنے اور جی ایس ٹی کی شرح 18فیصد کرنے سے مہنگائی میں بہت اضافہ ہوگا جس سے مشکلات بڑھ جائیں گی۔پاکستان نے آئی ایم ایف کو 600 ارب روپے کی بجائے 800 ارب روپے اضافی ریونیو حاصل کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے جس میں 620 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے اور باقی ایڈمنسٹریٹو و انفورسمنٹ اقدامات کے ذریعِے حاصل کیے جائیں گے تاہم آئی ایم ایف انتظامی اقدامات سے اضافی ریونیو حاصل کرنے کو شمار نہیں کررہا اور اس کا کہنا ہے کہ اس مد میں ہدف سے کہیں کم ریونیو آتا ہے لہذا ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو ایمنسٹی اسکیم پر بھی قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم ابھی تک آئی ایم ایف ایمنسٹی اسکیم کی مخالفت کررہا ہے جبکہ پاکستانی ٹیم کی جانب سے آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ یہ ماضی کی سکیموں سے مختلف ہوگی اور اس کا مقصد ملکی معیشت کو دستاویزی بنانا ہے اور اب چونکہ بے نامی قانون پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے اور ایف بی آر کے پاس بیرون ملک اثاثے اور دولت رکھنے والے پاکستانیوں کے بارے میں بڑے پیمانے پر معلومات مل چکی ہیں اور ان کی ری کنسیلئیشن جاری ہے اس لیے اس موقع پر یہ اسکیم موثر رہے گی اور لوگوں کو ایک بار اپنی غیرقانونی دولت و اثاثہ جات کو ٹیکس کی ادائیگی پر قانونی حیثیت دلوانے کا موقع دینے سے معیشت کو دستاویزی بنانے میں مدد ملے گی۔پاکستان کا کہنا ہے کہ اس اسکیم سے 300 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوگا اس سے ایف بی آر کا اضافی ریونیو 1000 ارب روپے کے قریب پہنچ سکتا ہے جو آئی ایم ایف کی تجویز کے قریب ہے اور اس سے صارفین پر ٹیکس کا اضافی بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر آئی ایم ایف سے آئندہ ہفتے اہم بات چیت ہوگی اور پالیسی سطح کے مذاکرات میں پیشرفت متوقع ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف جائزہ مشن کو آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار ملازمین کے لیے مقرر کردہ12 لاکھ روپے سالانہ قابل ٹیکس آمدنی کی حد پر نظر ثانی کرکے کم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے اور تنخواہ دار ملازمین کے لیے ٹیکس کے نئے سیلبز لائے جائیں گے اس کے علاوہ بھاری آمدنی رکھنے والے انفرادی ٹیکس دہندگان پر ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے گی۔علاوہ ازیں کمپنیوں کے لیے مجموعی طور پر ٹیکس کی شرح کم کی جائے گی تاہم ٹرن اوور پر ٹیکس کی شرح بڑھائی جائیگی، اس کے علاوہ درآمدی اشیا پر عائد ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی شرح میں بھی ایک سے 3 فیصد تک اضافہ کی تجویز ہے، اس اقدام سے ایف بی آر کو آئندہ مالی سال میں 40 ارب روپے کااضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا۔دستاویز کے مطابق آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ جن اشیا کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹی کی شرح 3 فیصد ہے ان پر ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی شرح 2 فیصد سے بڑھا کر 3 فیصد کرنے کی تجویز ہے جس سے ایف بی آر کو 10 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا اور جن اشیا کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹی کی شرح 11 فیصد ہے ان پر ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی شرح 2 فیصد سے بڑھا کر 3 فیصد کرنے کی تجویز ہے، اس سے 5 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا تاہم جن اشیا کی درآمد پرکسٹمز ڈیوٹی کی شرح 16 فیصد ہے ان پر عائد ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی شرح 2 فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کرنے کی تجویز ہے، اس سے ایف بی آر کو 4 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوگا۔اسی طرح جن اشیاء کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹی کی شرح 20 فیصد اور اسے زائد ہے ان پر ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی شرح 2 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے اس سے ایف بی آر کو 21 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا۔آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ ٹیکسٹائل، لیدر، گارمنٹس اور کارپٹ سمیت زیرو ریٹڈ سیکٹر کی تیار کردہ اشیا کی مقامی سپلائی پر دی جانے والی زیرو سیلز ٹیکس و رعایتی سیلز ٹیکس کی سہولت واپس لینے کیساتھ ساتھ متعدد اشیا و سیکٹرز کو حاصل زیروریٹنگ کی سہولت واپس لینے کی بھی تجویز ہے۔ اس اقدام سے 10 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوگا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے نئے ٹیکسوں اور انتظامی و انفورسمنٹ اقدامات سے 730 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کیا جاسکے گا جبکہ دیگر اقدامات سے 70 ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کیا جائے گا، مجموعی طور پر 800 ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے جبکہ آئی ایم ایف 1000 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا مطالبہ کررہا ہے۔
آ ئی ایم ایف