کورونا سے مقابلے کی یکساں پالیسی
سپریم کورٹ نے کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی رپورٹس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے وفاق اور صوبوں کو یکساں پالیسی بنانے کا حکم دیا ہے۔ یکساں پالیسی نہ بنانے کی صورت میں سپریم کورٹ عبوری حکم جاری کرے گی۔چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے، کہیں شفافیت نہیں، لگتا ہے سارے کام کاغذوں پر ہو رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی رپورٹس میں کچھ بھی نہیں، کورونا اخراجات کے آڈٹ سے اصل بات سامنے آئے گی،صوبائی حکومتیں مرکز کو ٹیکس دینے والے کاروبار کیسے روک سکتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا صدر، وزیراعظم کے ارادے نیک ہوں گے،لیکن کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا، کوئی یکساں حکمت ِ عملی نہیں ہے۔ ایک وزیر کچھ کہہ رہا ہے تو دوسرا کچھ کہتا ہے،وفاقی حکومت کی پالیسی صرف 25 کلو میٹر تک محدود ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے بظاہر لگتا ہے تمام ایگزیکٹو ناکام ہو گئے، وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ غرور اور اَنا ہے، ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کا ذاتی عناد ہے اس سے وفاق کو نقصان پہنچ رہا ہے، مسافر ایک سے دوسرے صوبے میں سفر کے لئے مال بردار ٹرک استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کوئی صوبہ پالیسی کے ساتھ نہیں آیا، جس شعبہ سے ڈرتے ہیں اسے کھول دیتے ہیں۔ وفاقی حکومت کے ریونیو کا راستہ صوبائی حکومتیں کیسے بند کر سکتی ہیں۔ صوبائی حکومتیں پیسے مانگ رہی ہیں۔ اگر وفاق کے پاس فنڈز ہیں تو اسے دینے چاہئیں۔
کیس کی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان نے جو ریمارکس دیئے وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے بہت کافی ہیں اور اگر ان ریمارکس سے روشنی مستعار لے کر راستے میں بکھیری جائے تو راہیں صاف ہو سکتی ہیں،لیکن غرور، اَنا اور ذاتی عناد کے بت بُری طرح رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔وفاق اور تین صوبوں کی حکومتیں تو ایک جانب ہیں،لیکن سندھ میں چونکہ ایک مخالف جماعت کی حکومت ہے اِس لئے وفاقی وزراء اپنی تمام تر صلاحیتیں سندھ کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ایسا نہیں ہے کہ سندھ کی حکومت کوئی مثالی حکومت ہے یا وہاں سب اچھا ہے۔کوتاہیاں بہت ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے،لیکن جب وفاق کی جانب سے طعن و تشنیع کے تیروں کی بارش ہوتی ہے تو صوبائی وزراء بھی جواب آں غزل کے طور پر بہت کچھ فرماتے ہیں۔اس ماحول میں یہ فیصلہ کرنا تو مشکل ہے کہ کون درست ہے اور کون غلط، لیکن وزیراعظم اور سندھ کے وزیراعلیٰ اپنے اپنے وزیروں کی لایعنی بیان بازی تو روک سکتے ہیں۔ایک وفاقی وزیر نے گزشتہ روز ہی فرمایا کہ سندھ میں گورنر راج لگا سکتے ہیں اگر ایسا ہے تو دیر کس بات کی ہے۔وفاقی حکومت وزراء سے ایسے بیان دلوانے کی بجائے عملی اقدام کر کیوں نہیں دیتی۔یہ درست کہ گورنر راج لگ سکتا ہے، لیکن جواب میں ظاہر ہے وہ سیاسی جماعت خاموش تو نہیں رہے گی،جس کی حکومت اس کی زد میں آئے گی،اِس وقت جو بیان بازی ہو رہی ہے اس میں بھی تیزی آئے گی، پھر حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں کچھ معلوم نہیں۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کئی بار کہا کہ وہ وفاق کی ہدایات کی روشنی میں کام کرنا چاہتے ہیں،لیکن اگر وفاقی حکومت کوئی کام ہی نہیں کرے گی یا کوئی گائیڈ لائن ہی نہیں دے گی اور لاک ڈاؤن کے بارے میں ارشاد ہو گا کہ یہ اشرافیہ نے کرایا، تو کیا سندھ کی حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی۔ وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ سندھ کی کرپٹ حکومت کو ایک پیسہ نہیں دیں گے اب جہاں تک کرپشن کے الزام کا تعلق ہے وہ تو وفاقی حکومت پر بھی کسی نہ کسی طرح لگ ہی رہا ہے تو کیا لوگ وفاقی حکومت کے خلاف بھی ایسے ہی بیانات دینا شروع کر دیں؟ احساس پروگرام کے تحت جس طرح رقوم تقسیم کی جا رہی ہیں کیا ان میں کہیں شفافیت نام کی کوئی شے نظر آتی ہے۔یہ پروگرام بنیادی طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہی کا تسلسل ہے،صرف نام تبدیل ہوا ہے اِس پروگرام کے فنڈ بھی ڈونر اداروں کی طرف سے آ رہے ہیں۔ بارہ ہزار روپے کی جس رقم کا بہت چرچا کیا جا رہا ہے وہ دراصل تین ماہ کی اقساط یکمشت ادا کی گئی ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی غیر مستحق لوگ رقوم وصول کر رہے تھے،حتیٰ کہ گریڈ بیس اور اکیس کے سرکاری افسروں کی بیگمات نے بھی رقوم وصول کیں،انہیں شاید اس امداد کی ضرورت نہ ہو،لیکن انہوں نے سوچا مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے؟اس طرح اب بھی احساس پروگرام میں غیر مستحق لوگ امداد وصول کر رہے ہیں، جن کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔اس پروگرام میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے اگر ایسا نہ ہوا تو آڈٹ کے وقت بہت کچھ سامنے آجائے گا۔
رضا کاروں کی جو فورس ٹائیگر کے نام سے بنائی جا رہی ہے اس کے ذریعے بھی سیاسی مفادات کا حصول پیش ِ نظر ہے، یہ لوگ جب حکمران جماعت کے ارکانِ اسمبلی کے زیر سایہ کام کریں گے اور وزیراعظم کے حلقے مضبوط کرنے کے حکم کو سامنے رکھیں گے تو کیا یہ سیاسی مفادات کے حصول کی ایک شکل نہیں ہو گی۔سندھ حکومت نے اس ٹائیگر فورس پر اعتراض کیا ہے ان کے بھی اپنے جیالے ہیں۔اگر ایک جماعت اپنی سیاسی قوت کی بنیاد پر ٹائیگر فورس بنانے کا حق رکھتی ہے، تو دوسری قوت کو یہ حق کیوں نہیں کہ وہ بھی جیالوں کی فورس بنائے۔یہی وجہ ہے کہ وفاق اور صوبوں (صحیح تر الفاظ میں صوبہ سندھ) کی پالیسی میں یکسانیت نظر نہیں آتی،اِس لئے سپریم کورٹ کو یہ حکم دینا پڑا کہ یکساں پالیسی نہ بنائی گئی تو اگلے ہفتے عبوری حکم جاری کیا جائے گا بہتر ہے ایک ہفتے کی اِس مہلت سے فائدہ اُٹھا کر وفاق اور صوبہ سندھ کے نمائندے مل بیٹھ کر ایسی پالیسی بنا لیں، جو یکساں ہو اور نظر بھی آئے، بیان بازی سے اجتناب کر کے اور اناؤں کی رکاوٹیں ہٹا کر اگر کام کیا جائے تو کچھ بھی مشکل نہیں۔
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت دوسری بار بنی ہے یہ دعویٰ بڑے زور شور سے کیا جا رہا تھا کہ تحریک انصاف نے صوبے کا صحت کا نظام بہت بہتر کر دیا ہے،لیکن کورونا کی وبا نے اس دعوے کی قلعی بھی کھول دی ہے اور پورا نظام اس کے سامنے ڈھیر ہوتا نظر آ رہا ہے، جو سُنا تھا سب فسانہ نظر آتا ہے،لیکن نکتہ چینی صرف سندھ کے نظام صحت پر کی جا رہی ہے ویسے دیکھا جائے تو پورے مُلک میں صحت اور ہسپتالوں کا نظام کھوکھلا ثابت ہوا ہے۔کورونا کے سنٹروں میں رکھے گئے مریض شکایت کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر نہیں آتے، صرف صفائی کرنے والا عملہ ہے، کھانے کی کوالٹی کی شکایات بھی ہیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جس نرخ پر یہ کھانا خریدا جا رہا ہے کیا وہ جائز اور مناسب ہیں ایسی اور ملتی جلتی شکایات ہر جگہ ہیں، پنجاب میں بھی ڈاکٹروں نے بارہ دن کا دھرنا دے کر اپنے مطالبات منوائے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ ان پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ فاضل جج صاحبان کے جو تاثرات ریمارکس کی شکل میں سامنے آئے ہیں اگر اُن کی روشنی میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنا لائحہ عمل بہتر بنا لیں تو کورونا کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال سے زیادہ بہترطریقے سے نپٹا جا سکتا ہے یہ کہہ کر اپنے دِل کو تسلی نہیں دینی چاہئے کہ کورونا سے اتنے لوگ نہیں مرے جتنے روزانہ حادثات میں مر جاتے ہیں اس طرح کی سوچ بے عملی پر اُبھارتی ہے، جبکہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ دعوے کرنے والے کچھ کر کے بھی دکھائیں۔