سلطان ٹیپو شہید (2)
گزشتہ سطور میں ہم نے جاوید نامہ میں اقبال نے جو کچھ سلطان ٹیپو پر لکھا اس کے بارے میں بات کی۔ لیکن اقبال کا سلطان کے ضمن میں یہ تبصرہ جس زبان(فارسی) میں لکھا گیا اس سے پاکستان کا بیشتر خواندہ طبقہ آگاہ نہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد فارسی زبان کی ترویج و اشاعت کا وہ کام بھی رک گیا جو دورِ اقبال میں تھا۔ توقع یہ تھی کہ قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے کالج اور یونیورسٹیاں اس زبان کی نشر و اشاعت میں پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گی۔ لیکن صورتِ حال اس کے برعکس ہو گئی۔ اس ترقی ء معکوس کے اسباب بیان کرنے کا یہ محل نہیں۔ لیکن ہمارے تعلیمی اداروں نے اقبال کے خوابوں کی تعبیر پا لینے کے بعد اقبال کا نام تو بہت اچھالا لیکن سارا زور، اقبال کے اردو کلام پر ڈال دیا گیا۔ اقبال کا دو تہائی کلام چونکہ فارسی میں تھا اس لئے دو تہائی اقبال ہم سے ناآشنا رہا یا ہم بحیثیتِ قوم اقبال کے فلسفے سے بیگانہ رہے۔ اگلے روز ایک صاحب نے مجھے فون پر پیغام بھیجا کہ میں نے اقبال کے فلسفہ ء خودی پر آج شام ای میڈیا پر لیکچر دینا ہے، اس لئے اقبال نے جو کچھ ”خودی“ پر کہا ہے اس کی ”ایک دو جملوں“ میں وضاحت فرما دیجئے!…… میں ان کو کیا جواب دیتا کہ ہر بڑا کام اتنا آسان نہیں ہوتا کہ اسے ایک دو جملوں میں بھگتا کر یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم نے اس ”بڑے کام“ کا خلاصہ بیان کر دیا ہے۔
اقبال اور ٹیپو سلطان بھی ایک ایسا موضوع ہے کہ جب تک برصغیر کے اس دور کی تاریخ کا ایک سرسری سا احاطہ نہ کر لیا جائے کہ جس میں سلطان شہید نے جنم لیا، جوان ہوئے اور پھر شہادت کو گلے لگا کر امر ہو گئے، اقبال نے ٹیپو پر جو کچھ لکھا اس کو سمجھنا ممکن نہیں۔ جاوید نامے کا اردو ترجمہ اور اس کی تشریح کئی شارحینِ اقبالیات نے کی ہے۔ لیکن اس کا بھی مفہوم جاننے کے لئے جب تک اقبال کے مختلف موضوعات کے سیاق و سباق کا علم نہ ہو تب تک کلامِ اقبال کی ہر شرح ادھوری اور ناتمام رہتی ہے…… اقبال اور ٹیپو کے سلسلے میں یہی نکتہ قارئین کرام کو زیرِ نظر رکھنا چاہیے۔
سلطان کی تاریخِ شہادت 4مئی 1799ء ہے۔ لیکن ان کی عظمت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ انہوں نے انگریز سے شکست کھائی بلکہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ ان کے شکست کے اسباب کیا تھے۔ میں جب زمانہ ء طالب علمی میں سلطان شہید کے دور کی تاریخِ ہند کا مطالعہ کر رہا تھا تو کئی بار سینے سے ہوک اٹھتی تھی کہ کاش اس دور کے ہندوسان کے مسلمان حکمرانوں نے سلطان کے خلاف انگریزوں کا ساتھ نہ دیا ہوتا!…… نظام حیدرآباد (دکن) نے ایک دوسرے مسلم حکمرانِ ریاست کے خلاف انگریزوں کا ساتھ کیوں دیا اور مرکز میں دہلی کے تخت پر جلوہ افروز، شہنشاہِ ہندوستان نے ٹیپو کی شہادت اور سرنگاپٹم کے سقوط کا نوٹس کیوں نہ لیا؟…… میں تو یہاں تک چلا جاتا ہوں کہ خود سلطان شہید کے کردار کو موضوع بحث لے آتا ہوں۔
اگر جنگ پلاسی (1757ء) میں میر جعفر نے نواب سراج الدولہ کے خلاف بغاوت کی اور پھر اس کے صرف 42برس بعد میر صادق نے سلطان ٹیپو سے غداری کی تو اس کا ذمہ دار کون تھا۔ اور جو کمانڈر اپنی صفوں میں کسی غدار کا سراغ نہیں لگاتا اس کو کمانڈ کا حق کیسے پہنچتا ہے…… میں بابر اور شیرشاہ سوری کا وہ واقعہ یاد کرتا ہوں تو شیر شاہ سوری کی غداری کے جراثیم کی بروقت ٹوہ لگانے پر ظہیر الدین بابر کی مردم شناسی پر عش عش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ جب سوری نے (جس کا نام فرید خان تھا) ایک دعوتِ عام میں بابر کے آغازِ طعام خوری کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے خنجر سے اپنے سامنے رکھے روسٹ بکرے کو کاٹنا شروع کر دیا تھا تو بابر نے ایک خادم کو بلا کر حکم دیا تھا کہ فرید خان کو گرفتار کر لیا جائے۔ لیکن دوسری طرف فرید خان کی چوکسی کی داد بھی دیجئے کہ جب بابر نے اپنے خادم کو بلا کر انگلی کا اشارہ فرید خان کی طرف کیا تو فرید خان بجلی کی سی تیزی سے اٹھا اور اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر فرار ہو گیا…… یہ واقعہ شاہانِ مغلیہ کی مردم شناسی کا وہ اصولِ حکمرانی تھا جس کی بنا پر انہوں نے 800برس تک برصغیر پر حکومت کی۔
لیکن جب 18ویں صدی کے اواخر میں انگریز کی ریشہ دوانیاں، چالاکیاں، عیاریاں اور مکاریاں دیکھ کر دہلی کے مغل حکمران ٹس سے مس نہ ہوئے تو آخر اس کا نتیجہ تو وہی ہونا تھا جو 4مئی کی شام کو چشمِ فلک نے دیکھا…… کہنا یہ چاہتا ہوں کہ جہاں سلطان شہید نے اپنے وطن کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کر دی وہاں اس سے یہ بھول کیوں ہوئی کہ اس نے میر صادق جیسے غدار کو اس طرح شناخت نہ کیا جس طرح بابر نے فرید خان (شیر شاہ سوری) کو کیا تھا!…… میں سمجھتا ہوں اقبال کا آنسوئے افلاک میں سلطان ٹیپو سے جو مکالمہ ہوا، اس کی جھلک میں اقبال کی جذباتیت کو زیادہ دخل تھا۔ سلطان ٹیپو برصغیر کا ایک سربرآوردہ اور عظیم ہیرو تھا لیکن کاش ہمارے حصے میں شکست خوردہ ہیروز (Fallen Heroes) نہ آئے ہوتے۔ ہم پاکستانیوں نے تو پاکستان ملٹری اکیڈمی (PMA) میں ایک کمپنی کا نام ”ٹیپو کمپنی“ رکھ کر ایک فالن ہیرو کو زندہ ء جاوید کر دیا!
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ دل میں مرے درد سوا ہوتا ہے
چلئے چھوڑیئے اس دردِ پارینہ اور اس دورِ پُراشوب کو اور چلتے ہیں اقبال کے جاوید نامہ میں ذکرِ سلطان شہید کی طرف…… آنسوئے افلاک، اقبال اور ٹیپو کی نگاہیں چار ہوتی ہیں تو ٹیپو اقبال سے پوچھتے ہیں: ”اقبال! ہمارے ہندوستان جنت نشان کا کچھ حال سناؤ کہ جس کی مسجدوں سے ہنگامے رخصت ہو گئے“…… اقبال جواب دیتے ہیں کہ: ”اہلِ ہندوستان اگرچہ انگریزوں سے بیزار ہو چکے ہیں لیکن خود برطانوی قوم کا جادو بھی اب بے اثر ہو رہا ہے“…… اقبال کے اس جواب پر سلطان ٹیپو اقبال کو یاد دلاتے ہیں کہ: ”تم ہمارے شہر (سرنگا پٹم) سے بھی ہو آئے ہو اور ہمارے مزار پر بھی گئے تھے اس لئے سچ سچ بتاؤ کہ کیا ہماری ریاست میں آج کل زندگی کے کوئی آثار موجود ہیں؟“
ہم گزشتہ قسط میں بتا چکے ہیں کہ اقبال جنوری 1929ء میں سرنگا پٹم گئے تھے اور مزارِ سلطان پر حاضری دی تھی۔ چونکہ جاوید نامہ 1932ء میں شائع ہوا اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ اقبال نے سلطان شہید پر یہ نظم 1929ء سے لے کر 1932ء تک کے درمیان کسی وقت موزوں کی ہو گی…… اقبال سلطان ٹیپو کا سوال سن کر کہتے ہیں کہ: ”ہاں میں نے ریاست میسور میں زندگی کے ہنگامے دیکھے ہیں۔ میں خود اس سرزمین میں اپنے آنسوؤں کے موتی کاشت کر آیا ہوں اور اب تو ان سے لالہ و گل بھی اگنے لگے ہیں۔“ یعنی اقبال کہنا چاہتے ہیں کہ ان کا کلام رائیگاں نہیں جا رہا بلکہ اہلِ ہند اب گہری نیند سے بیدار ہو رہے ہیں اور ان میں حصولِ آزادی کا جذبہ پروان چڑھتا نظر آ رہا ہے۔ اور تو اور خود دریائے کاویری کی موجوں میں بھی طوفان کے آثار ہویدا ہیں۔
مجھے امید ہے نوجوان نسل نے دریائے کاویری (Kaveri) کا نام شاذ ہی سنا ہو گا۔ میں نے سطورِ گزشتہ میں اسی لئے عرض کیا تھا کہ جب تک ہندوستان کی تاریخ اور جغرافئے کا علم نہ ہو، کلامِ اقبال کی تفہیم مشکل ہے…… جس طرح ہم پاکستان میں سندھ،راوی اور جہلم کا نام سنتے ہی نگاہوں میں ان دریاؤں کا تصور اتار لیتے ہیں، اس طرح انڈیا میں شمالی ہند کے لوگ گنگا اور جمنا اور جنوبی ہند کے رہنے والے کاویری، گوداوری اور کرشنا دریاؤں کی لوکیشن اور حجم سے آشنا ہیں۔ ہمارے سکول کے زمانے میں برصغیر کے ان بڑے بڑے دریاؤں کی تفصیلات تدریس کی جاتی تھیں۔ آج بھی انگلش میڈیم سکولوں میں ان دریاؤں کا ذکر ملتا ہے۔ میں نے ازراہِ امتحان اپنے نواسے سے جب دریائے کاویری کا نام پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کے کورس میں جنوبی ہند کے ان دریاؤں (گوداوری، کاویری اور کرشنا) کا تذکرہ موجود ہے……
جنوبی ہند کے نقشے پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو کرناٹک، کیرالا اور تامل ناڈو کی ریاستوں میں دریائے کاویری کا ذکر ملے گا۔ جس طرح ہمارا دریائے سندھ، گلگت بلتستان سے ہوتا اور پنجاب اور صوبہ سندھ سے گزر کر بحیرۂ عرب میں جاگرتا ہے، اسی طرح جنوبی ہندوستان میں دریائے کاویری کورگ کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اور کرناٹک اور کیرالا سے ہوتا ہوا، تامل ناڈو میں ایک وسیع و عریض طاس (Basin) بناتا خلیج بنگال میں جاگرتا ہے۔ ریاست میسورکو اب انڈیا نے کرناٹک کا حصہ بنا دیا ہے۔ اور دریائے کاویری، سرنگا پٹم کے قلعے کے نزدیک اسی طرح بہہ رہا ہے جس طرح ہمارا دریائے سندھ،اٹک کے قلعے کے ساتھ بہتا ہوا ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ سرنگاپٹم کا قلعہ آج بھی انڈیا میں سلطان ٹیپو کے قلعے کے نام سے مشہور ہے۔ اسی قلعے میں سلطان ٹیپو کو شہید کیا گیا تھا۔
جس جنگ میں یہ شہادت ہوئی وہ 5اپریل 1799ء کو شروع ہوئی تھی اور اس کو میسور کی چوتھی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے تین جنگیں انگریزوں اور سلطان کے درمیان ہو چکی تھیں جو بے نتیجہ رہی تھیں۔ اس آخری اور چوتھی جنگِ میسور میں انگریزوں کے ساتھ نظام دکن اور مرہٹے بھی تھے اور ان کی افواج کے دستے بھی باقاعدہ اس جنگ میں سلطان کے خلاف نبردآزما تھے۔ یہ قلعہ میسور جس میں سلطان کو محصور ہو جانا پڑا، ہندوستان کے عظیم اور مضبوط قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ انگریزوں (اور ان کے اتحادیوں) کی افواج (انفنٹری، گھڑ سوار اور فیل سوار) کی تعداد 50ہزار تھی جبکہ سلطان کی فوج میں 30 ہزار کی نفری تھی۔ توپخانہ بھی تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کے سپہ سالار جنرل ہیرس اور ولزلی تھے اور سلطان کی فوج کے سپہ سالار میر صادق اور سید غفار تھے۔ 5اپریل کو جب جنگ شروع ہوئی تو سید غفار مارا گیا۔ وہ سلطان کا جانثار کمانڈر تھا…… کچھ دنوں بعد قلعہ کی فصیل میں توپوں کی گولہ باری سے شگاف پڑ گیا اور انگریز فوج قلعہ کے اندر داخل ہو گئی۔
میر صادق چپکے سے اپنی فوج کو ایک طرف لے گیا اور سلطان شہید کے ذاتی محافظ اپنے حکمران پر پروانہ وار کٹ کٹ کر گرنے لگے۔ اس انگریزی فوج میں برٹش ٹروپس کی تعداد صرف 4ہزار تھی اور باقی 26 ہزار سپاہ کمپنی کے دیسی ٹروپس پر مشتمل تھی…… 4مئی 1799ء کو گھمسان کا رن پڑا اور سلطان شہید ہو گیا۔ یہ معرکہ صبح 11بجے شروع ہوا اور شام تک جاری رہا۔ سلطان ٹیپو کی لاش کو مشعلیں جلا جلا کر تلاش کیا جاتا رہا۔ آخر لاش مل گی۔ سلطان کے سینے اور کنپٹی پر گولیاں لگی تھیں۔ جس وقت ان کی لاش کو ڈھونڈ لیا گیا تو شہید کے چہرے پر بلا کا دبدبہ اور شاہی تمکنت ہویدا تھی……یہ جنگ صرف ایک ماہ تک لڑی گئی…… آج بھی قلعہ میں اس جگہ ایک کتبہ / سائن پوسٹ نصب ہے جس پر لکھا ہوا ہے کہ: ”سلطان کی لاش اس جگہ ملی تھی!“
قارئین سے معذرت کہ میں نے اس جنگ کے احوال کو ذرا تفصیل سے بیان کرنے کی کوشس کی ہے۔ سلطان ٹیپو نے جس جرات اور بہادری سے جان دی اس کا اعتراف انگریزوں نے بھی کیا (اور یہ ایک اور درد ناک موضوع ہے)۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ہم شکست خوردہ سلطان کو بھی اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہیں۔ اقبال نے سلطان کو خراج عیقدتِ پیش کرتے ہوئے حضرتِ امام حسین علیہ السلام کی روائت کا وارث قرار دیا ہے:
ہائے وہ فیضِ نگاہِ خواجہءؐ بدر و حنین
قصرِ سلطانی کے شایاں، وارثِ جذبِ حسینؓ
(جاری ہے)